بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے نکاح میں تاخیر کرنے کی وجہ سے چھپ کر نکاح کرلینا


سوال

 میں نے ایک لڑکی سے چھپ کر نکاح  کیا ہے، جو ہر لحاظ سے میری ہم پلہ ہے ، میرے اور اس کے والدین  اس رشتے سے راضی ہیں، لیکن پڑھائی  مکمل ہو نے کے بعد، یعنی ڈیڑھ  سال بعد وہ ہماری شادی اور رخصتی کرائیں گے تو  ہم نے گناہ کے خدشہ کی وجہ سے  چپکے   سے نکاح کرلیا ہے دو گواہوں کی موجودگی میں ، کیا یہ درست ہے، اگر نہیں تو کیا کیا جاۓ؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر  عاقلہ بالغہ  لڑکی اپنے والدین  کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے، اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہے،  اگر لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیر    غیر کفو میں نکاح کیا ہو  تو   اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو  عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء   کو وہ نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ،  اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین،دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ  اور مذکورہ لڑکی نکاح کے وقت بالغ تھے اور  دو گواہوں کی موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا  تو مذکورہ نکاح شرعاً منعقد ہو چکا، اور اگر لڑکا لڑکی کا کفو بھی ہے تو اولیاء کو اعتراض کا نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، باقی والدین کی رضامندی کے بغیر یوں چھپ کر نکاح کرنا شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسلامی معاشرتی احکام اور آداب کی روشنی میں والدین اولاد کے لیے فیصلہ کرتے ہیں،  یا اولاد والدین کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرتے ہیں، بہر حال ان معاملات میں سرپرستی بزرگوں کی ہونی چاہیے۔

نیز  چھپ کر نکاح کرنا مصالح نکاح کے بھی خلاف ہے، شریعت نے  نکاح کے اعلان کے حکم کے ساتھ ساتھ مساجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے؛ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن سے بندھنے والے افراد پر حرام کاری کا الزام لگانے کا موقع کسی کو نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آ سکے جو نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:  أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث.

(سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)

چھپ کر نکاح مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی شرعی و معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، جیسے ہم بستری کے نتیجہ میں حمل ٹھہرنے  کے بعد حمل ضائع کروانا ( جوکہ ایک درجہ میں قتلِ اولاد کے زمرے میں آتا ہے)، مذکورہ مرد و خاتون کو نازیبا حرکات کرتے دیکھنے والوں کا ان کے بارے میں بدگمان ہونا یا ان پر بد چلنی کا الزام لگانا وغیرہ، لہذا اب بہتر یہی ہے کہ والدین کو اعتماد میں لے کر اس معاملہ سے انہیں آگاہ کردیا جائے اور  باقاعدہ  نکاح  کی تشہیر کردی  جائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں