بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین نے کچھ رقم جہیز کے لیے جمع کی ہو تو لڑکی کو مزید ضرورت کے لیے زکوٰۃ کی رقم دینا


سوال

 ایک عورت جو ماں  باپ کے ساتھ رہتی ہے،  ایک ہی دسترخوان میں کھانا کھاتی ہے،  والدین نے بیٹی کی جہیز کے لیے 50000 روپے جمع کیے ہیں  جو نصاب کے بقدر ہے اور یہ اس  کے لیے ناکافی ہے،  اب کیا اس لڑکی کو زکوٰۃ کے پیسے  سے  جہیز کا سامان دلوا سکتے ہیں ؟ اور اگر نہیں تو اس کو جہیز کے سامان دلوانے کی کیا صورت ہوگی ؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں والدین نے اگر بیٹی کے جہیز کے لیے  پچاس ہزار جمع  کیے ہوں اور وہ بیٹی کو مالک  بنا کر نہیں  دیے ہوں،  بلکہ فی الحال والدین ہی کی ملکیت میں موجود ہوں  اور  مذکورہ لڑکی عاقلہ بالغہ ہے اور  اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی  ساڑھے  سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی،  اگر اس کے  پاس  کچھ  زیور  اور  ضرورت سے زائد  کچھ نقدی ہو تو اگر دونوں کی قیمت ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہے تو اس کو زکات دینا جائز نہیں ہے،  اگر اس سے کم قیمت بنتی ہے  تو اس کو زکات دینا جائز ہوگا۔ نیز زکات کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مستحق کا مالک بناکر رقم یا چیز حوالہ کی جائے۔

لہذا اگر مذکورہ پچاس ہزار روپے تاحال والدین کی ملکیت ہوں اور وہ  لڑکی اگر مستحقِ  زکات ہے تو  اسے زکات کی مد سے  رقم یا جہیز یا سونا وغیرہ  مالک بناکر دیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح اگر مذکورہ رقم لڑکی کے والدین نے اسے حوالہ کردی ہے، لیکن اس رقم کے علاوہ اس کے پاس سونا، چاندی، مالِ تجارت  اور  ضرورت و استعمال سے زائد سامان بالکل نہیں ہے تو بھی یہ لڑکی مستحقِ زکات ہوگی، کیوں کہ پچاس ہزار روپے آج کل نصاب کے برابر نہیں ہیں۔

اور اگر لڑکی نصاب کے بقدر رقم کی مالک ہے (جس کی قیمت آج کل   تقریبًا اکیاسی ہزار چار سوپچھتر روپے  ہے، اور چاندی کی قیمت بڑھتی گھٹتی رہتی ہے، لہٰذا  ادائیگی کے دن چاندی کی قیمت دریافت کرلی جائے) تو اس صورت میں  اگر اس کے والدین زکات کے مستحق ہیں تو انہیں زکات کی رقم مالک بناکر دے دی جائے ،  پھر وہ اپنی بیٹی کے شادی کے اخراجات پورے کرلیں۔

نیز اگر مذکورہ لڑکی زکوٰۃ کی مستحق ہو اور اسے شادی کے اخراجات کے مد میں کچھ  کچھ  کرکے دینے میں یہ امکان ہو کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے گی تو اس صورت میں زکوٰۃ دینے والے کسی شخص یا ان کے والدین کے پاس ہی رقم جمع کرائیں اور جب  ضرورت کی رقم مکمل ہوجائے تو یکمشت اس کے حوالہ کردی جائے، ضرورت ہونے کی وجہ سے نصاب سے زیادہ زکوٰۃ دینا مکروہ بھی نہیں ہوگا۔

باقی شادی کے وہ اخراجات جن میں کسی مستحق کو مالک بنانا نہ پایا جائے، (مثلاً ہال وغیرہ کی بکنگ یا کھانے کے اخراجات کی ادائیگی) ان مدات میں از خود رقم صرف کرنے سے زکات ادا  نہیں ہوگی۔

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

"لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، و هي مسكنه، و أثاث مسكنه و ثيابه و خادمه، و مركبه و سلاحه، و لايشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. و يجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، و إن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي ... و لايدفع إلى بني هاشم، و هم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية. ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة و النذر و العشر و الكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي."

(1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں