بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے غسل کے پانی سے بچوں کو نہلانے سے نظر کا علاج


سوال

 کیا والدین کو اپنے بچوں کی ضد ختم کرنے  کے  لیے اپنے غسل میں استعمال کیے گئے   پانی سے نہلانے  سے ان کی ضد ختم ہوتی ہے ؟  ایک ڈاکٹر صاحب نے  ایک حدیث کا حوالہ بھی دیا ہے،  اس کا لنک  منسلک ہے۔  گزارش ہے کہ شریعتِ اسلام کی روشنی میں مکمل راہ نمائی فرمائیں!

جواب

ہمارے ضابطہ  کے مطاق لنک  سے ویڈیو  دیکھ کر اس کے مندرجات کا جواب نہیں دیا جاتا، آپ   مندرجات نقل کرکے اس سے متعلق شرعی  راہ نمائی  لے سکتے ہیں۔

باقی نظر بد کے علاج کے لیے  درج ذیل طریقہ حدیث میں منقول ہے :

"حضرت ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (میرے والد ) سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل کرتے ہوئے دیکھا  تو کہنے لگا کہ اللہ کی قسم (سہل کے جسم اور ان کے رنگ و روپ کے کیا کہنے ) میں نے تو آج کے دن کی طرح (کوئی خوب صورت بدن کبھی ) نہیں دیکھا ۔ اور پردہ نشین (خوب صورت عورت)  کی بھی کھال نہیں دیکھی ۔ ابوامامہ کہتے ہیں کہ (عامر کا)  یہ کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا (جیسے ) سہل کو گرا دیا گیا (یعنی ان کو عامر کی ایسی نظر لگی کہ وہ فوراً غش کھا کر گر پڑے ) چنانچہ ان کو اٹھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ " یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہل کے صحت یاب ہونے کی خواہش ہے اللہ کی قسم یہ تو اپنا سر بھی اٹھانے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا کسی شخص کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ اس نے ان کو نظر لگائی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ( جی ہاں ) عامر بن ربیعہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے بارے میں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے نظر لگائی ہے۔ راوی کہتے ہیں  کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) عامر کو بلایا اور ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی  کو کیوں مار ڈالنے کے درپے ہوتا ہے، تم نے سہل کو برکت کی دعا کیوں نہیں دی ( یعنی اگر تمہاری نظر  میں سہل کا بدن اور رنگ و روپ بھا گیا تھا تو تم نے یہ الفاظ کیوں نہ کہے  "بارك اللّٰه علیك" تاکہ ان پر تمہاری نظر کا اثر نہ ہوتا ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر کو حکم دیا کہ جاؤ اس کی خاطر تم غسل کرو، چنانچہ عامر نے ایک برتن میں اپنا منہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے  دونوں پاؤں اور زیرِ ازار حصہ ایک بڑے پیالے میں  دھویا اور پھر وہ پانی جس سے عامر نے  یہ تمام اعضاء دھوئے تھے سہل پر ڈالا گیا، اس کا اثر یہ ہوا کہ سہل فوراً اچھے ہو گئے اور اٹھ کر لوگوں کے ساتھ اس طرح چل پڑے جیسے ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا ۔"

"وعن أبي أمامة بن سهل بن حنيف قال: رأى عامر بن ربيعة سهل بن حنيف يغتسل فقال: والله ما رأيت كاليوم ولا جلد مخبأة قال: فلبط سهل فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقيل له: يا رسول الله هل لك في سهل بن حنيف؟ والله ما يرفع رأسه فقال: «هل تتهمون له أحداً؟» فقالوا: نتهم عامر بن ربيعة قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عامراً فتغلظ عليه وقال: «علام يقتل أحدكم أخاه؟ ألا بركت؟ اغتسل له» . فغسل له عامر وجهه ويديه ومرفقيه وركبتيه وأطراف رجليه وداخلة إزاره في قدح ثم صب عليه فراح مع الناس ليس له بأس."

( مشکاۃ  شریف۔2 / 1286)

اس حدیث کی تشریح میں علامہ نواب محمد قطب الدین خان دہلوی (صاحب مظاہر حق) فرماتے ہیں:

"پانی کا پیالہ لے کر اسے زمین پر نہ رکھا جائے نظر   لگانے والا اس میں سے پانی لے کر کلی کرے اور کلی کا پانی پیالے میں ڈالے پھر اس میں   پانی لے کر وہ اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں ہتھیلی کو دھوئے۔  پھر دائیں ہاتھ میں پانی لے کر اس سے بائیں ہتھیلی دھوئے۔ پھر دایاں گھٹنا پھر بایاں گھٹنا سابقہ طریق سے دھوئے۔ یہ تمام اعضاء پیالے میں دھوئے یعنی دھونے سے جو پانی مستعمل ہوا وہ پیالے میں پڑے پھر تہبند کے اندر سے دھوئے جب یہ تمام اعضاء دھو چکے تو پچھلی جانب سے مریضِ عین (جسے نظر لگی ہو) کے سر پر ڈالے۔ اس طرح کے علاج اسرار و حکمتوں سے ہیں،  محض عقل ان کو معلوم کرنے سے عاجز ہے۔‘‘

(۴ / ۳۰۲، مکتبۃ العلم، مظاہرِ حق)

اس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کی نظر لگی ہو یا جس کے بارے میں گمان ہو کہ اس کی نظر لگی ہے اس سے اعضاء دھلوا کر جسے نظر لگی ہو اس پر ڈالا  (اسے نہلایا)  جائے، لہٰذا اگر یہ گمان ہو کہ والدین کی نظر لگی ہے تو پھر مذکورہ طریقے پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان کی نظر لگنے کا گمان نہ ہو تو پھر اس حدیث سے استدلال کرکے والدین کو غسل کرواکر بچوں کو اس سے نہلانا درست نہیں ہوگا۔ مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

نظر بد دور کرنے کے لیے دعا اور علاج

نظر بد اتارنے کا طریقہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں