بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کا اولاد کوبغرض تربیت مارنے کا حکم


سوال

1)بچوں کا بات نہ ماننے پر والدین کا غصے میں اُنہیں مارنا تو کیا والدین گنہگار ہوں گے ؟

2)میرا ایک بیٹا 4 سال کا ہے بعض اوقات بات نہ ماننے پر مجھے غصّہ آ جاتا ہے تو میں اسے مارتی ہوں جس کی وجہ سے بعد میں بہت افسوس ہوتا ہے اور ایک بیٹی ایک سال 5ماہ کی ہے بعض اوقات بہت ضد کرتی ہے تو غصّہ آ جاتا ہے تو اُسے مارتی ہوں بعد میں خود بھی بہت پریشان ہوتی ہوں ہر دفعہ توبہ کرتی ہوں کہ آئندہ نہیں ماروں گی ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں گناہ گار تو نہیں ؟ بہت پریشان ہوں

جواب

الف)واضح رہے کہ تربیت کی غرض  سے  والدین کا اولاد کومارنا شرعاً درست ہے،البتہ چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

1)بچوں کو مارنے سے مقصود  تربیت ہو غصہ یا جذبہٴ انتقام کی تسکین نہ ہو۔

2)بچوں کی طبیعت اُس کی متحمل ہو۔

3)سر اور چہرہ پر نہ مارا جائے۔

4)بقدرِ ضرورت کمر  اور گردن پر مارا جائے۔

ب)صورتِ مسئولہ میں سائلہ  کے بیٹے چوں کہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے مار کے متحمل نہیں ہیں،اس لیے سائلہ کااپنے چار سالہ بیٹے اور ڈیڑھ سالہ بیٹی کو مارنا جائز نہیں ہے،کم عمر بچوں کو مارنے کے بجائے درج ذیل اعمال ووظائف کا اہتمام کیا جائے۔

1)سورۂ فاتحہ اور سورۂ تکویر (اذا الشمس کورت، پارۂ عم) تین تین مرتبہ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پانی بچے کو پلاتے رہیے۔

2)اسی طرح آیاتِ شفاء پڑھ کر بچے پر پابندی سے دم کیجیے اور اسے جو بھی خوراک (کھانا پینا) دیں تو اس پر بھی یہ آیات پڑھ کردم کرکے دیا کیجیے، آیاتِ شفاء درج ذیل ہیں:

1- {وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ} [التوبة: 14:9]
2- {وَشِفَآءٌ لِّمَا فِى ٱلصُّدُورِ} [یونس: 57:10]
3- {يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ‌} [النحل: 69:16]
4- {وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ} [الإسراء: 82:17]
5- {وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِین} [الشعراء: 80:86]
6- {قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَآءٌ} [حٰم السجدة: 41:44]

(اسوۂ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،  تالیف ڈاکٹر محمد عبدالحی عارفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن معاذ قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات قال لا تشرك بالله شيئا وإن قتلت وحرقت ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله ولا تشربن خمرا فإنه رأس كل فاحشة وإياك والمعصية فإن بالمعصية حل سخط الله عز وجل وإياك والفرار من الزحف وإن هلك الناس وإذا أصاب الناس موتان وأنت فيهم فاثبت وأنفق على عيالك من طولك ولا ترفع عنهم ‌عصاك ‌أدبا وأخفهم في الله. رواه أحمد."

(كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، ج:1، ص:25، رقم:61، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وأنفق على عيالك) : بكسر العين أي: من تجب عليك نفقته شرعا، ومحل بسطه كتب الفقه (من طولك) : بفتح أوله أي: فضل مالك، وفي معناه الكسب بقدر الوسع، والطاقة على طريق الاقتصاد، والوسط في المعتاد (ولا ترفع عنهم ‌عصاك ‌أدبا) : مفعول له أي: للتأديب لا للتعذيب، والمعنى إذا استحقوا الأدب بالضرب فلا تسامحهم كقوله تعالى: {واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن} [النساء: 34] على الترتيب الذكري (وأخفهم في الله) أي: أنذرهم في مخالفة أوامر الله. ونواهيه بالنصيحة، والتعليم، وبالحمل على مكارم الأخلاق من إطعام الفقير وإحسان اليتيم وبر الجيران وغير ذلك."

(كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، ج:1، ص:134، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

سنن أبوداود میں ہے:

" عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها، وهم أبناء عشر وفرقوا بينهم في المضاجع". 

(1/ 133، کتاب الصلاۃ، باب متی یومر الغلام  بالصلاۃ، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(واضربوهم عليها) : أي: على ترك الصلاة (وهم أبناء عشر سنين) : لأنهم بلغوا، أو قاربوا البلوغ". 

( کتاب الصلاة، (2/ 512)،دار الفكر، بيروت – لبنان)

مشكاۃ المصابيح میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا ضرب أحدكم فليتق الوجه» . رواه أبو داود".

(2/ 1079،  کتاب الحدود، باب التعزیر، الفصل الثاني، ط: المکتب الإسلامي بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"والأصل أن الواجب لا يتقيد بوصف السلامة والمباح يتقيد به ومنه ضرب الأب ابنه تأديبا أو الأم أو الوصي."

(كتاب الجنايات، باب القود فيمادون النفس، ج:6، ص:565، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں