بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد پر والدین کا ہر صورت میں ادب واحترام ضروری ہے


سوال

اگر باپ بیٹے کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو بیٹے کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورت مسئولہ میں  بیٹے پر ایسی حالت میں بھی  والد کا ادب واحترام بہرصورت لازم ہے، اگر والد غلطی پر ہوں تب بھی ان کی بے ادبی، توہین، تذلیل یا ان کے ساتھ بے باکانہ گفتگو کرنا جائز نہیں ہے۔  غلطی پر ہوتے بھی والد کی خدمت و اطاعت اور تعظیم بیٹے پر  لازم ہے۔اور اگر بیٹے کی غلطی ہو تو  پھر بیٹے کو معافی مانگنی چاہیے اور نافرمانی پر توبہ  اور استغفار  لازم ہے، والد کی خدمت واطاعت کو اپنے لیے سعادت سمجھنا چاہیے، والدین کی طرف سے سختی یا زیادتی ہو تو اسے برداشت کرنا چاہیے اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ دعا کرتے ہیں۔نیز والد کی  ہرجائز کام میں اطاعت ضروری ہے، ایک حدیث مبارک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ کی  رضا والد کی رضامندی میں ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (24)

’’ترجمہ: اور حکم کر چکا تیرا رب  کہ نہ پُوجو اس کے سوائے اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اگر پہنچ جائے تمہارے سامنے بڑھاپے کو ان میں سے ایک یا دونوں تو نہ کہہ ان کو ہُوں اور نہ جھڑک ان کو اور کہہ ان سے بات ادب کی  اور جھکادے ان کے آگے کندھے عاجزی کرکر نیازمندی سے اور کہہ اے رب ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا۔‘‘

(ماخوذ از ترجمہ شیخ الہند، ص: ۳۷۷)

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا أبو حفص عمرو بن علي حدثنا خالد بن الحرث حدثنا شعبة عن يعلى بن عطاء عن أبيه عن عبد الله بن عمرو : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال رضي الرب في رضى الوالد وسخط الرب في سخط الوالد".

(سنن الترمذي ، باب  ما جاء من الفضل في رضا الوالدين ، ج: ۴، صفحہ: ۳۱۰، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں