بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین یا بھائی کی قبر میں دفنائے جانے کی وصیت کرنا


سوال

 اس طرح وصیت کرنے کا کیا حکم ہےکہ مجھے مرنے کے بعد میرے والدین میں سے کسی ایک کی قبر میں یا بھائی کی قبر میں دفنایا جائے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی میت کا جسم بالکل خاک نہ ہوا ہو تو اُس کی قبر میں قصدًا وارادۃً دوسرے شخص کو دفن کرنا جائز  نہیں ہے اور اگر میت کا جسم بالکل خاک ہوچکا ہو اور اس کا کوئی اثر باقی نہ ہو تو بوقتِ ضرورت اس کی قبر میں دوسرے شخص کو دفن کرنے کی گنجائش ہے، نیز کسی خاص جگہ میں دفن کیے جانے کی وصیت کرناشرعًا غیر معتبر ہے، ایسی صیت پر عمل کرنا ورثاء پر توبہر صورت لازم نہیں، البتہ اگر کوئی بات خلافِ شرع لازم نہ آئے تو اس پر عمل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں فوت شدہ والدین یا بھائی کی قبر میں دفن کیے جانے کی وصیت کرنا شرعًا لازم نہیں ہے، البتہ اگر وصیت کرنے والے کے فوت شدہ والدین یا بھائی کا جسم بالکل خاک ہو چکا ہو اور اس کا کوئی اثر باقی نہ ہو تو ورثاء کے لیے اس وصیت پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، اور اگر فوت شدہ والدین یا بھائی کے جسم کے بارے میں اندازہ ہو کہ ابھی تک خاک نہیں ہوا ہوگا تو  ایسی صورت میں مذکورہ وصیت پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"أوصى بأن يدفن في داره فوصيته باطلة إلا أن يوصي أن يجعل داره مقبرة للمسلمين، وفي الفتاوى والخلاصة ولو أوصى أن يدفن في بيته لا يصح ويدفن في مقابر المسلمين."

(كتاب الوصايا، الباب الثاني في بيان الألفاظ التي تكون وصية والتي لاتكون وصية، 95/6، ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"لا يدفن اثنان في قبر إلا لضرورة، وهذا في الابتداء، وكذا بعده. قال في الفتح، ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، 233/2، ط: سعيد)

وفیہ ایضًا:

"ويكره الدفن في الفساقي اهـ وهي كبيت معقود بالبناء يسع جماعة قياما لمخالفتها السنة إمداد. والكراهة فيها من وجوه: عدم اللحد، ودفن الجماعة في قبر واحد بلا ضرورة، واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصيصها، والبناء عليها بحر. قال في الحلية: وخصوصا إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، 233/2، ط: سعيد)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه، كذا في التبيين."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مكان إلى آخر، 167/1، ط: رشيدية)

فتاوٰی رحیمیہ میں ہے:

"راجح قول کے مطابق مردہ جب خاک ہوجائے اور اس کا اثر باقی نہ رہے تو اس صورت میں دوسرے  میت کو اُس کی قبر میں دفن کرنا جائز ہے، خاص کر بڑے شہروں میں جہاں زمین کی قلت ہوتی ہے اور اس سے قبل جب اندازہ ہو کہ میت کا جسم خاک نہ ہوا ہوگا، قصدًا و اردۃً بلا عذر شرعی قبر کھود نا جائز نہ ہوگا۔"

(کتاب الجنائز، عنوان: پرانی قبر میں دوسرا مردہ دفن کرنا کیسا ہے؟، 70/7، ط: دار الاشاعت)

فتاوٰی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"دیدہ دانستہ پرانی قبر کو بحالتِ موجودگی میت کے بدون کسی ضرورت کے کھودنا جائز نہیں۔"

(کتاب الجنائز، عنوان: پرانی قبر میں دفن کرنا کیسا ہے؟، 265/5، ط: دار الاشاعت)

احکامِ میت میں ہے:

"کسی خاص شخص سے نماز پڑھانے یاخاص جگہ دفن کرنے کی وصیت:

بعض لوگ کسی خاص شخص سے نماز پڑھوانے یا کسی خاص مقام پر دفن کرنے کی وصیت کرجاتے ہیں، پھر وارث اس کا اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ بعض اوقات شرعی واجبات کی بھی خلاف ورزی ہوجاتی ہے، یاد رکھیے! ازروئے شرع ایسی وصیتیں لازم نہیں ہوتیں، اگر کوئی بات خلاف شرع لازم نہ آئے تو اس پر عمل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں۔"

 (کسی خاص شخص سے نماز پڑھانے یاخاص جگہ دفن کرنے کی وصیت، ص: 316، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں