بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے یومِ وفات پر اولاد کا قرآن خوانی کرنے کا حکم


سوال

والدین کے یوم وفات پر  اُن کے ایصالِ ثواب  کے لیےاولاد کا قرآن خوانی کرنا اور اس کے بعداکھٹا کھانا کھاناجا ئز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہےکہ میت (جو بھی ہو، والدین ہوں یا کوئی اورہو اس )کےایصالِ ثواب  کے لیے قرآن خوانی جائز ہے، بشرطیکہ  اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھا جائے:

اوّل۔یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میّت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم۔یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ: "بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ(غلط پڑھنے کی وجہ سے) قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے"۔

سوم۔یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میّت کو کیا ثواب پہنچائیں گے۔

چہارم۔قرآن خوانی کے لیے کوئی دن (مثلاً سوئم، چہلم ، یومِ وفات وغیرہ) خاص کرکے  اس کا التزام نہ کیا جائے، اگر خاص دن کا التزام کیا جائے تو یہ بدعت ہونے کی وجہ سے  درست نہیں ہوگا، نیز قرآن خوانی کے موقع  پرکھانا وغیرہ نہ کھلایا جائے۔

لہٰذا اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے  اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے،   قرآنی خوانی  پر اجرت کا لین دین نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے عوض میں دعوت کا التزام کیا جائے  اور نہ ہی میت کے خاص یومِ وفات پر اس کا التزام کیا جائے تو  یہ جائز ہے۔ لیکن  جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہاں اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنياـ إنا لله وإنا إليه راجعون ـ اهـ."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الإجارة على الطاعات، 56/6، ط: سعید)

وفیہ ایضًا:

"وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، 240/2، ط: سعید)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قال الطيبي: وفيه أن ‌من ‌أصر ‌على ‌أمر ‌مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."

(كتاب الصلاة، باب الدعاء في التشهد،755/2، ط: دارالفکر)

احیاء علوم الدین میں ہے:

"قال أنس بن مالك: ‌رب ‌تال ‌للقرآن والقرآن يلعنه."

(کتاب آداب تلاوة القرآن، الباب الأول في فضل القرآن وأهله، وذم المقصّرین في تلاوته، 274/1، ط: دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101331

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں