بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کے حکم پر طلاق دینا


سوال

کیا ہم اپنے  ماں باپ کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے سکتے ہیں؟  اگرچہ ہمیں پتا  ہو کہ بیوی کے ساتھ  ساتھ  ماں باپ کی بھی غلطیاں ہیں؟   دوسری بات یہ کہ والدہ نے منع کیا ہے  کہ بیوی کے رشتے داروں سے حسنِ سلوک نہیں کرنا، یہاں تک کہ سلام،  کلام اور جنازہ میں بھی شریک نہیں ہونا، اگر بات نہیں مانی تو  دودھ نہیں بخشوں  گی، جب کہ رشتے توڑنے والے کے  لیے بھی اسلام میں وعید آئی ہے، اب ماں کی بات مانوں  یا اسلامی اَحکام سے روگردانی کروں؟

جواب

شریعتِ  مطہرہ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت تاکید کی ہے اور اُن کا ہر  جائز حکم پورا کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن دوسری طرف  یہ بھی حکم دیا ہے کہ  اگر وہ کسی ایسی بات کا مطالبہ کریں  جس سے کسی کی حق تلفی ہوتی ہو یا  اُسے پورا کرنے کے نتیجے میں کسی فرض و واجب کا ترک لازم آتا ہو یا ناجائز کام کا ارتکاب کرنا پڑے تو ایسے امور میں والدین کا حکم پورا کرنا نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہے،  بلکہ  اس کا ترک ضروری ہے ، ایسی صورت میں احترام اور ادب کے ساتھ والدین کو سمجھانا چاہیے کہ یہ حکم خلافِ شریعت ہے، اس لیے اس پر عمل کرنا شرعًا  جائز نہیں ہے، اگر خود سمجھانا ممکن نہ ہو تو خاندان کے بڑوں سے کہلوایا جائے۔

لہذا اگر کسی کی  والدہ کسی معقول و معتبر سبب کے بغیر بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرتی ہوں تو  کوشش کرنی  چاہیے کہ اُن کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور ان کو راضی کر لیا جائے، بہرحال! بغیر کسی معقول وجہ کے بیوی کو طلاق دینا نہایت بری بات ہے؛  والدہ کو حکمت وبصیرت کے ساتھ شرعی حکم بتلایاجائے کہ طلاق اللہ کے ہاں جائز کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے، اور شدید مجبوری کے بغیر طلاق کو اختیار کرنا مذموم ہے، اسی طرح اگر والدہ بیوی کے رشتہ داروں سے سلام، کلام کے ترک کرنے کا مطالبہ کرتی ہوں تو اُن کو محبت سے سمجھا دینا  چاہیے کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔

اگر وہ پھر بھی نہیں مانتیں تو طلاق دینا لازم نہیں ہوگا، اور طلاق نہ دے کر سائل اپنی والدہ کا نافرمان نہیں ہوگا، بشرطیکہ وہ ان کے احترام اور ادب میں کمی نہ آنے دے، اور حسنِ سلوک میں کوتاہی نہ کرے۔ نیز بیوی کے رشتہ داروں  میں سے مرد حضرات اور خواتین میں سے جن  سے شوہر کے لیے پردے کا حکم نہیں ہے، (مثلًا: خوش دامن)   ان سے  بالکلیہ سلام و کلام ترک کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’حدیثِ پاک کا منشا یہ ہے کہ بیٹے کو والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں سخت سے سخت آزمائش کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے، حتیٰ کہ بیوی بچوں سے جدا ہونے اور گھر بار چھوڑنے کے لیے بھی۔ اس کے ساتھ ماں باپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بے انصافی اور بے جا ضد سے کام نہ لیں۔ اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو محسوس نہ کریں اور صریح ظلم پر اُتر آئیں تو ان کی اطاعت واجب نہ ہوگی، بلکہ جائز بھی نہ ہوگی۔ آپ کے سوال کی یہی صورت ہے اور حدیثِ پاک اس صورت سے متعلق نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔‘‘

خلاصہ یہ کہ ناجائز امور میں والدین کی اطاعت ضروری نہیں ہے، لیکن اس بات کا خیال رکھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ والدین کے ایسے رویے کی وجہ سے ان کی بے ادبی یا بے احترامی کی قطعاً اجازت نہیں، بلکہ ہر حال میں ان کا احترام ملحوظِ خاطر رکھنا لازمی ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 132):

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك".

 (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله".

  فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144107201257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں