بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کا اپنی اولاد کو زمین ہبہ کرکے اپنے لیے استفادہ کی شرط لگانا


سوال

کیا والدین  اپنے بچوں کو زمین اس شرط کے ساتھ ہبہ کرسکتے ہیں کہ ان کو اس زمین سے استفادہ کا حق رہےگا، ایسی صورت مین زمین کا مالک کون ہوگا؟ والدین کا اپنے لیے حقِ استفادہ  باقی رکھنے کا کیا حکم ہے؟ اور والدین کے انتقال کے بعد  یہ زمین والدین کے ترکہ میں شامل ہوگی یا بچوں کی ملکیت میں ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں والدین اگر  اپنی اولاد کو زمین ہبہ کرکے عملی طور پر قبضہ و تصرف نہ دیں، بلکہ  اپنے لیے استفادہ کی شرط لگائیں تو اس صورت میں محض زبانی یا تحریری ہبہ کرنے سے وہ ہبہ شرعاً درست نہیں ہوگا۔

کیوں  کہ ہبہ کرتے وقت مکمل قبضہ واختیار دینا ضروری ہے، بغیر قبضہ واختیار کے صرف نام کرنے سے ہبہ تام نہیں ہوتاہے، اور اس صورت میں والدین ہی اس کا مالک ہوں گے اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ میں شامل ہوکر تمام ورثاء میں شرعی طریقہ کے مطابق تقسیم ہوگی۔

اور یہ بھی یاد رہے کہ والدین کے لیے اولاد کے درمیان ہبہ میں برابری ضروری ہے، یعنی جتنا بیٹے کو دے  اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ اس میں کمی بیشی کرے اور نہ ہی کسی کو محروم کرے، بلاوجہ اولاد کے درمیان ہبہ میں کمی بیشی کرنے یا کسی ایک کو محروم کرنے کی صورت میں والدین گناہ گار ہوں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأنها لا تبطل بالشروط الفاسدة حتى لو وهب الرجل عبده على أن يعتقه صحت".

(كتاب الهبة، ج:4، ص:374، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الھبة( بالقبض) الکامل(ولو الموھوب شاغلا لملك الواھب  لامشغولا به) والأصل أن الموھوب إن مشغولا بملك الواھب منع تمامھا، وإن شاغلا لا".

(کتاب الھبة، ج:5،ص:690-691،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"بخلاف جعلته باسمك فانه لیس بھبة".

(کتاب الھبة، ج:5،ص:689،ط:سعید)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

''وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» .وفی روایة : أنه قال:«أیسرك أن یکونوا فی البر سواء؟»قال بلی،قال: فلاإذن، وفي رواية ...... قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم''.

( ج:1،باب العطایا،باب 17،الفصل الأول،ص:453،ط:بشری)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو ۔ ایک اور روایت میں یوں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نعمان کے والدسے )فرمایا کہ" کیاتم یہ پسند کرتے ہوکہ تمہارےسب بیٹے تمہاری نظر میں نیکی کے اعتبار سے یکساں ہوں"(یعنی کیاتم یہ چاہتے  ہو کہ تمہارے سب بیٹے تمہارے ساتھ اچھاسلوک کریں اور سب ہی تمہاری فرمانبرداری  اورتمہاری تعظیم کریں ؟انہوں نے کہاکہ "ہاں"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ "اس صورت میں (جب کہ تم نے اپنے تمام بیٹوں سے اپنے تئیں یکساں اچھے سلوک کے خواہشمند ہوتو)صرف اپنے ایک یٹے (نعمان) کو غلام نہ دو"ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101772

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں