ایک شخص جو کہ والدین کی نافرمانی کرتا ہے اور ان کی بات نہیں مانتا، والدہ اس کو فضول خرچی سے منع کر تی ہے، لیکن وہ فضول خرچی کرتا رہتا ہے، اور اسی طرح وہ کسی لڑکی کے تعلق میں ہے،اور والدہ اس کو اس سے منع کرتی ہے ،لیکن وہ منع نہیں ہوتا، اور اسی طرح والدہ کو گالی دیتا ہے، اور اس سے بدتمیزی کرتا ہے، اور مارتا بھی ہے، اور اپنے بھائی بہنوں کو بھی مارتا ہے، جس کی وجہ سے گھر والے اس سے ناراض ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے ؟اور ایسے شخص کو امام بنانا کیسا ہے؟
سوال میں مذکورہ شخص کے اپنی ماں کے ساتھ رویہ اور سلوک سے متعلق جو کچھ لکھا ہے، اگر یہ واقع کے مطابق ہے تو یقیناً اس کا یہ رویہ اور سلوک ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے، جس کا خمیازہ آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑتا ہے، بلاشبہ یہ شخص شیطان کے مکرو فریب کا شکار ہے، اس پر لازم ہے کہ اپنے اس رویہ سے توبہ کرے، والدین کی نافرمانی پر ان سے معافی مانگےاور ان کو راضی کرے،ان کی خدمت کرے،ان کے بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے ، جیساکہ بچپن میں وہ اس کا سہارا بنے تھے، اور مشقتیں اٹھا کر اس کو پالا تھا، اور ان کی زندگی کو اپنے لیے سعادت کا باعث سمجھے۔
نیز ایسا شخص فاسق شمار ہوگا،اور فاسق کی امامت نیک و صالح شخص کی موجودگی میں مکروہ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا}
[الإسراء: 23، 24]
ترجمہ: ’’اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔‘‘ ( ازبیان القرآن)
ا حادیث مبارکہ میں ہے:
1- "عن عبدالله بن عمرو قال: قال رسول الله ﷺ : من الکبائر شتم الرجل والدیه، قالوا: یارسول الله وهل یشتم الرجل والدیه، قال: نعم، یسب أبا الرجل فیسب أباه ویسب أمه فیسب أمه. متفق علیه".
(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الاول)
ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی بھی دے سکتاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! آدمی کسی دوسرے کے والد کو گالی دیتاہے تو وہ بھی اس کے والد کو گالی دیتاہے، اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتاہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
2- "عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".
(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث)
ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان)
3- "حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن أبي الدرداء أن رجلا أتاه فقال له: إن أبي يأمرني بطلاقها، فقال أبو الدرداء سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «الوالد أوسط أبواب الجنة» فأضع ذلك أو احفظه، وربما قال سفيان إن أمي وربما قال إن أمي وأبي".
(مسند الحميدي،احاديث ابوالدرداء،ج:1،ص:379،رقم:399،ط:دار السقا)
ترجمہ: ’’سیدنا ابورداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے: ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے والد مجھے یہ حکم دے رہے ہیں کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں، تو سیدنا ابورداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔ (یہ تمہاری مرضی ہے) کہ تم اسے ضائع کرتے ہو یا س کی حفاظت کرتے ہو“ سفیان نامی راوی نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کیے ہیں: میری والدہ نے مجھے یہ حکم دیا ہے، اور بعض اوقات انہوں نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں: میری والدہ نے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) اورمیرے والد نے مجھے یہ حکم دیا ہے‘‘۔
4- " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»".
(مشكاة المصابيح،ج:2،ص:421،باب البر والصلۃ،ط:قدیمی)
ترجمہ: ’’ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ، اے اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو جنت میں جاؤ گے ، ان نافرمانی کروگے تو دوزخ میں جاؤگے)۔‘‘ (مظاہرِ حق ، 4/486، ط قدیمی)
5- "وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»".
(مشکاۃ المصابیح،2/421 ،باب البر والصلۃ،ط:قدیمی)
ترجمہ: ’’رسول کریمﷺ نے فرمایا ؛ شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔‘‘(مظاہرِ حق ، 4/487، ط قدیمی)
فتاوی شامی میں ہے:
"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة."
(كتاب الصلاة،باب الاِمامة،ج:1،ص:557،ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601102506
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن