بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا بیان سننے والے فریق دوم کی طرف سے گواہ بن سکتے ہیں یا نہیں؟


سوال

 ایک زمین پر دو بھائیوں کا تنازعہ ہے،  ایک ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے یہ زمین خود خریدی ہے،  انتقال اور قبضہ اسی بھائی کا ہے،  دوسرے بھائی کا دعویٰ یہ ہے کہ ہماری ماں کے پاس ہماری مشترک کمائی تھی اور  ماں نے اس پہلے بھائی کو پیسےدیے کہ مشترک بھائیوں کے  لیے خریدو،  اس پہلے بھائی نے خیانت کر کے انتقال اپنے نام کیا ہے،  اس دوسرے فریق کے ساتھ گواہی میں ماں کا وہ بیان ہے جو ماں نے اس دوسرے فریق کے ساتھ رہتے  ہوئے دو آدمیوں کے سامنے دیا تھا،  بیان یہ دیا تھا کہ میں نےاس پہلے بیٹے کو پیسے دیے تھے،  اس نے خیانت کی ہے،  اب یہ ماں کا بیان سننے والے فریق دوم کی طرف سے گواہ بن سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعۃً دوسرے فریق کے پاس اس بات پر  شرعی گواہ موجود ہیں کہ والدہ نے پہلے فریق کو اس لیے پیسے دیے تھے کہ وہ سب بھائیوں کے لیے مشترک جائیداد خریدےاور وہ دونوں گواہ عاقل بالغ ، آزاد ، مسلمان، عادل ہوں ،  تو ان کی گواہی شرعًا  معتبر ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أما الثاني فأنواع: منها ما يرجع إلى الشاهد، وهو العقل والبلوغ والحرية والبصر والنطق، وأن لا يكون محدودا في قذف عندنا وأن يشهد لله - تعالى - ولا يجر الشاهد إلى نفسه مغنما، ولا يدفع عن نفسه مغرما، وأن لا يكون خصما، وأن يكون عالما بالمشهود به وقت الأداء ذاكرا له عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لا عندهما هكذا في البدائع."

(کتاب الشهادات ، الباب الأول في تعريف الشهادة وركنها وسبب أدائها وحكمها وشرائطها وأقسامها جلد 3 ص: 450 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144501101987

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں