میرے بھائی کا میری والدہ کے انتقال سے تین ماہ پہلے انتقال ہوگیا تھا،اب بھائی کے بچے میری ماں کی جائیداد میں سے حصہ مانگ رہے ہیں،کیا شریعت میں ان کا حصہ بنتا ہے؟واضح رہے کہ ماں کا میں اور بھائی دو ہی وارث تھے۔
واضح رہے کہ وارث بننے کے لیے مورث (انتقال کرنے والے) کی موت کے وقت زندہ ہونا شرط ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً آپ کےبھائی کا انتقال والدہ کی زندگی میں ہوچکا تھا، تو وہ شرعاً والدہ مرحومہ کے وارث شمار نہیں ہو گا،اسی طرح آپ کے بھائی کی اولاد کا بھی آپ کی موجودگی میں آپ کی والدہ کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
والدہ کے انتقال کے وقت اگرآپ کے علاوہ کوئی اور وارث زندہ نہیں تھا ،تب والدہ کی ساری جائیداد کے اکیلے آپ حقدار ہیں،تاہم اگر بھتیجے ضرورت مند ہوں تو صلہ رحمی کرتے ہوئےاپنے بھتیجوں کو بھی جائیداد میں سے کچھ حصہ دے سکتے ہیں،اس پر آپ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔
تبیین الحقائق میں ہے:
"قال - رحمه الله - (ثم الأخ لأب وأم ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم ثم ابن الأخ لأب)."
(كتا ب الفرائض، العصبات في الميراث، ج:7، ص:486، ط: دار الكتب العلمية بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويقدم الأقرب فالأقرب منهم)."
(كتاب الفرائض،فصل في العصبات، ج:6، ص:774، ط:سعيد)
وفيه ايضاً:
"بيانه أن شرط الإرث وجود الوارث حيا عند موت المورث."
(كتاب الفرائض، فصل في العصبات، ج:6، ص:769، ط:سعيد)
وفيه ايضاً:
"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه."
(كتاب الفرائض، ج:6، ص:758، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602100873
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن