بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ نے منہ زبانی اپنا مکان مجھے دیا تھا اب کس کی ملکیت ہوگی ؟


سوال

ہمارے دو مکان ہیں، جو والداور والدہ کے ترکہ سے ہم کو ملے  ہیں ، ایک شیر شاہ اورایک اُورنگی ٹاؤن میں ، ہم  چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں ، میں  سب سے چھوٹا ہوں ، شیر شاہ کا جو مکان ہے ا س کے بارے میں  والدہ کہتی تھیں کہ یہ میرے چھوٹے بیٹے کا ہے ، لیکن والدہ نےاس بارے میں  کوئی تحریر نہیں لکھی  تھی ، یہ مکان والدہ نے اپنا زیور بیچ کر  خریدا تھا  ، والد کا انتقال 2007ء میں ہوا ، والد نے اپنی زندگی میں نو بہن  بھائیوں کی شادی کی ، والدہ نے وہ مکان ایک بھائی  کو کرایہ پر دیا تھا 2000ء  میں،  والدہ نے کئی مرتبہ بھائی سے  کہا کہ یہ مکان خالی کردو،لیکن اس نے خالی نہیں کیا اور  پھر 2011 میں میری شادی ہوئی ، شادی کے بعد والدہ بیمار رہنے لگی ۔ والدہ نے  بھائی سے کہا کہ یہ مکان خالی کردو ،میں اور میرا چھوٹا بیٹا یہاں پر رہیں گے ۔ بھائی کی بیٹی کی شادی تھی تو بھائی نے والدہ سے 15دن کی مہلت مانگی لیکن اس نے مکان خالی نہیں کیا۔ والدہ نے ہر بار مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ کورٹ چلو یہ مکان  میں تمہارے نام کروا دوں ۔ لیکن میں  نے کہا کہ بعد میں کرنا، پھر والدہ کا بھی 2011 كے  ساتويں  مہنیے میں انتقال ہوگیا ، انتقال کے بعد 2012 میں ہماری ایک میٹنگ ہوئی جس میں خاندان کے افراد اور ہم سب بہن بھائی موجود تھے جس میں یہ بات طے پائی کہ یہ مکان چھوٹےبیٹےکایعنی میرا  ہے جس کی بناء پر میرا سامان شیرشاہ والے مکان لے گئے لیکن اس بھائی نے مکان  خالی نہ  کیا17 ماہ تک سامان بھائی کے گھر رہا اور میں نے کرائے کے مکان میں بغیر سامان کے زندگی گزاری میرے ساتھ چھ ماہ کا بیٹا بھی تھا ، ان سب باتوں کا بہن بھائی کوبھی علم تھا ۔اب آپ  سے سوا ل یہ ہے کہ یہ مکان میرا ہے یا والدہ کی میراث میں تقسیم ہوگا؟، آج بھی چار بھائی اور چار بہنیں بھی اس با ت پر راضی ہیں جو والدہ کہتی تھی ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں   ذکر کردہ وضاحت کے مطابق مذکورہ مکان کے بارے میں سائل کی والدہ نے صرف زبانی کہا تھا کہ یہ میرے چھوٹے بیٹے کا ہے ، اسےمالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ  نہیں دیا تھا تو یہ مکان اور والد کا مکان دونوں مرحومین کے ترکہ میں شامل ہوکر ان کے ورثاء میں تقسیم ہوں گے، جتنا جلد ہوسکے آپس کی رضامندی کے ساتھ ترکہ کو  تقسیم کردیا جائے؛ کیوں کہ بلاوجہ تقسیم میں تاخیر سے بعد میں الجھنے پید اہوجاتی ہیں ۔نیز کسی وارث کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ اپنے حصے پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے  فروخت یا ہبہ کرلے۔  

البتہ اگر والدہ مرحومہ کے ورثاء میں  سے  جو وارث والدہ کی خواہش کو پورا کرنےکی وجہ سے اپنے  حصے سے دست بردار ہونا چاہتا ہے تو وہ درج ذیل دو صورتوں میں سے کوئی صورت اختیار کرسکتا ہے :

1- دست بردار ہونے والا اپنے حصے کے عوض اس وارث سے جس کے حق میں دست بردار ہورہا ہےکچھ معمولی رقم لے کر اس کے حق میں دست بردار ہوجائے ۔

2-  اپنا شرعی حصہ اس وارث کو جس کے حق میں دست بردار ہو رہا ہے فروخت کرکے وہ رقم اس کو معاف کردے یا معمولی قیمت میں فروخت کردے۔

مرحومین کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہسب سے پہلے   مرحومین   کے حقوقِ متقدّمہ یعنی تجہیز وتکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد  اگر م  ان  کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ  سے ادا کرنے کے بعداور اگر انهوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی  میں سے نافذ کرنے کے بعد  کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو16حصوں میں تقسیم کرکےہر ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے :

میت:١٦

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
۲۲۲۲۲۲۱۱۱۱

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحومین کے ہر ایک بیٹے کو 12.50فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 6.25فیصد ملے گا۔

بنايه میں   ہے:

"قال: و لايجوز‌‌ الهبة فيما يقسم إلا ‌محوزة مقسومة وهبة المشاع فيما لايقسم جائزة (و لايجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة) ش: أي مفرغة عن إملاك الواهب."

(الهبة فیما یقسم، ج۔۱۰،ص۔۱۶۸،ط۔دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"و تتم الهبة بالقبض الکامل."

(ردّ المحتار علی الدر المختار، کتاب الهبة، ج: ۵، ص:۶۹۰،ط۔ سعید)

تكمله حاشيه ابن عابدين:

"‌الإرث ‌جبري لايسْقط بالإسقاط."

(تكمله،ج۔8،ص۔116،ط۔سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں