بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

والدہ کو سونا ہبہ کرنےکے بعد واپس لینے کاحکم


سوال

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں باہر ملک میں رہتا تھا، میری بیوی اور بچے یہیں کراچی میں رہتے تھے، گھریلو معاملات کی خرابیوں کی وجہ سے مجھے باہر ملک (قطر)سے واپس آنا پڑا، جب میں باہر تھا، تو اس وقت کچھ عرصہ بعد کراچی اپنے گھر آجایا  کرتا تھا، میں آنے سےپہلے اپنی والدہ سے ان کے لیےکچھ لانے کے بارےمیں پوچھتا تھا، تو وہ مجھے کہتی تھی  کہ مجھے ”گولڈ“ چاہیےمیں ان لیے"”گولڈ“ لا یا کرتا تھا اور وہ اسے اپنے  پاس رکھ لیا کرتی تھیں،اوریہ گولڈمیں نے والدہ کو ہبہ(گفٹ) کرکے مکمل قبضہ وتصرف کے ساتھ دے دیا تھا  بہر حال جب میں مستقل یہاں پر آگیا، گھر یلو معاملات کی بناء پر، تو والدہ نے مجھے الگ گھر میں رہنے کا کہا، (جو کہ ہمارا اپنا گھر تھا ہم نے اسے کرایہ پر دے رکھا تھا)جب بات الگ رہنے کی ہوئی تو اس وقت میں نے کہا ٹھیک ہے! تو پھر مجھے وہ سارا سونا واپس کردیں،والدہ نے وہ سب سونا مجھے واپس کردیا، پھر اس کے بعد (تقریباًدو سال ڈھائی سال کا عرصہ) میری والدہ نے مجھ سے پہننے کےلیے کڑے مانگے، اس وقت ہمارے حالات والدہ کے ساتھ بالکل درست ہوچکے تھے اورغلط فہمیاں بالکل ختم ہوچکی تھیں، ساتھ والدہ نے اس بات کی بھی وضاحت کردی تھی کہ میں جو آپ سے گولڈ منگوایا کرتی تھی، وہ صرف اس وجہ سے منگواتی تھی کہ آپ جب یہاں پر واپس آئیں تو خالی ہاتھ نہ رہیں ،لیکن جس وقت میں لاتا تھا، اس وقت والدہ کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں ہوتی تھی،  اس کے علاوہ والد نے یہ بھی کہا کہ جو رقم آپ بھیجاکرتے تھے، وہ ساری کی ساری گھر میں خرچ ہوگئی (یعنی اس کی تعمیرات میں)لہذا وہ سب کی ہوگئی ہے ،نیز میں جب رقم بھیجتا تھا تو جب بھی والدہ نے مجھ سےذاتی طور پر رقم مانگی میں نے وہ ان کے لیے بھیجی ،بہر حال والدہ کے کڑے مانگنے پر میں نے اپنی والد ہ کو پہننے کےلیے دو جوڑے بھیج دیے، والدہ نے کہا کہ میں نے تو ایک جوڑا مانگا تھا، میں نے کہا کہ ان میں سے جو دل چاہیے آپ اپنے  لیے پہن لیں، اس کےعلاوہ دوسرے جوڑے کے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی نہ  میں نے کچھ اس بارے میں کہا اور نہ ہی والدہ نے، میری والدہ کا انتقال ہوچکا ہے۔

پوچھناصر ف یہ ہے مذکورہ کڑوں کے دو جوڑے کس کے ہوں گے ؟جب کہ کڑے دیتے وقت والدہ کی طرف سے یہ وضاحت ہوگئی تھی کہ میں یہ کڑے صرف پہننے کےلیے لے رہی ہوں، راہ نمائی فرمائیں ۔

نوٹ :میں نے جو کڑے دیے تھے وہ اسی سونے میں سے دیے تھے جو میں بھیجاکرتا تھا اورپھر وہ میں نے والدہ سے واپس لے لیا تھا ۔

جواب

صورت مسئولہ ميں سائل(بیٹے) کا اپنی والدہ کو سونا ہبہ (گفٹ) کرنےکے بعد شرعاًواپس لینا جائز نہیں  تھا اب جب والدہ نے سونا واپس کردیا تو (بیٹا)سائل اس سونے کا مالک ہوگیاتھا ،بعد میں جب والدہ نے استعمال کےلیے کڑے لیے اور بیٹے نے دوجوڑے کڑے  والدہ کو بھجوائے کہ جو دل چاہیں  پہن لیں تو اگر بیٹے نے والدہ کو صرف پہننے کےلیے دیا تھا گفٹ نہیں کیا تھا تو یہ کڑے والدہ کےپاس امانت تھے ان کے انتقال ہوجانےکی صورت میں ان کے ترکہ میں شمار نہیں ہوں گے بلکہ یہ کڑے سائل واپس لے سکتاہے اور اگر بطور گفٹ کے دیے تھے تو پھر والدہ  مالک تھیں اور انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوں گے۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط الرجوع بعد ثبوت الحق حتى لايصح بدون القضاء والرضا؛ لأن الرجوع فسخ العقد بعد تمامه وفسخ العقد بعد تمامه لا يصح بدون القضاء والرضا كالرد بالعيب في البيع بعد القبض."

(كتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، جلد: 6، صفحہ: 128، طبع: سعيد)

مبسوط سرخسی میں ہے:

" ثم الهبة والصدقة قد تكون من الأجانب، وقد تكون من القرابات، وذلك أفضل؛ لما فيه من صلة الرحم، وإليه أشار النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «أفضل الصدقة على ذي الرحم الكاسح». ولهذا بدأ الكتاب بحديث رواه عن إبراهيم عن عمر رضي الله عنه قال: من وهب لذي رحم محرم هبة؛ فقبضها؛ فليس له أن يرجع فيها. وذكر بعد هذا عن عطاء، ومجاهد عن عمر رضي الله عنه قال ‌من ‌وهب ‌هبة ‌لذي ‌رحم ‌محرم؛ فقبضها: فليس له أن يرجع فيها، ومن وهب هبة لغير ذي رحم: فله أن يرجع فيها - ما لم يثب منها -. والمراد بقوله: ذي رحم محرم: قد ذكر ذلك في بعض الروايات، وهذا لأنه يفترض صلة القرابة المتأبدة بالمحرمية دون القرابة المتحرزة عن المحرمية، وهو كما يتلى في القرآن في قوله سبحانه وتعالى {واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام} [النساء: 1] أي: اتقوا الأرحام أن تقطعوها، وقال الله تعالى: {وتقطعوا أرحامكم} [محمد: 22] {أولئك الذين لعنهم الله فأصمهم وأعمى أبصارهم} [محمد: 23]."

(کتاب الهبة:ج:12،ص:49،ط:: دار المعرفة بيروت لبنان)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"أما العوارض المانعة من الرجوع فأنواع (منها) هلاك الموهوب ... (ومنها) خروج الموهوب عن ملك الموهوب له ... (ومنها) موت الواهب، . . (ومنها) الزيادة في الموهوب زيادة متصلة . . . (ومنها) أن يتغير الموهوب .. (ومنها الزوجية) (ومنها القرابة المحرمية)."

(الباب الخامس في الرجوع في الهبة وفيما يمنع عن الرجوع ما لا يمنع، ج: 4، ص: 385، ط: ماجدية)

فتح القدیر میں ہے:

"(وإن وهب هبةً لذي رحم محرم منه فلا رجوع فيها) لقوله - عليه الصّلاة والسّلام - :إذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها، ولأنّ المقصود فيها صلة الرحم وقد حصل (وكذلك ما وهب ‌أحد ‌الزوجين للآخر) ؛ لأنّ المقصود فيها الصلة كما في القرابة، وإنما يُنظر إلى هذا المقصود وقت العقد حتّى لو تزوّجها بعدما وهب لها فله الرجوع، ولو أبانها بعدما وهب فلا رجوع ."

(فتح القدیر،کتاب الہبۃ،باب الرجوع فی الہبۃ، ج:9،ص:44،ط:دار الفکر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم .... (ومنها القرابة المحرمية)، سواء كان القريب مسلما أو كافرا، كذا في الشمني ولا يرجع في الهبة من المحارم بالقرابة كالآباء والأمهات، وإن علوا والأولاد، وإن سفلوا وأولاد البنين والبنات في ذلك سواء."

(كتاب الهبة، الباب الخامس في الرجوع في الهبة، ج:4، ص:385، ط:رشيدية)

البحر الرائق میں ہے : 

  " هي تمليك المنافع بغير عوض ... ثم قال بعد سطور : وحكمها كونها أمانة ...  و قال بعده :  ويرجع المعير متى شاء ) لعدم لزومها."

(كتاب العارية، ج:7، ص:280، ط:دار المعرفة) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں