بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کو برا بھلا کہنا


سوال

میری ایک بیٹی ہے، میرے شوہر کے انتقال کے بعد میری بیٹی کا رویہ بہت خراب ہوگیا ہے،بات بات پر جھگڑتی ہے، مجھے اور اپنے آپ کو کوستی ہے، ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں، لیکن اس کا رویہ نہیں بدلتا، پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا ہے ۔میں بہت پریشان ہوں، پلیز کوئی حل بتائیں۔

جواب

واضح رہے کہ والدین ایسی ہستیاں ہیں جنہوں نے ہمیں پالا اور ہمیں بڑا کیا  اور ہمیں اس قابل بنا یا کہ ہم  اچھے برے کی تمیزکر سکیں ، والدین  ایک گھنے درخت کی مانند ہیں اپنے بچوں کو اپنی چھاؤں میں رکھتے ہیں ، والدین جیسی نعمت  ایک دفعہ ہی ملتی ہے اور  اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے لہذا  والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا شرعاً ضروری ہے، ان کی نافرمانی اور ان کی ایذا  رسانی  سخت حرام اورکبیرہ گناہ  ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ  میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،والدہ سے جھگڑنا اور ان کو برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے بلکہ  یہ انتہائی بدبختی اور شقاوت ہے،   والدین کی نافرمانی،  ان کے ساتھ   بدکلامی  کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی  ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی بیٹی کو چاہیے کہ اپنی والدہ سے  اپنے اس رویہ پر  معافی مانگے ،اور سائلہ اپنی بیٹی کے حق میں خصوصی دعا کرےاور  اس دعا کو کثرت سے پڑھتی رہے:

" رَبَّنَا هَب لَنَا مِن أَزوٰجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ أَعيُن وَٱجعَلنَا لِلمُتَّقِينَ إِمَامًا".

اللہ تبارک وتعالی مدد فرمائیں گے ۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]

         ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن)

 حدیث شریف  میں ہے:

"عن عبدالله بن عمرو قال: قال رسول الله ﷺ : من الکبائر شتم الرجل والدیه، قالوا: یارسول الله وهل یشتم الرجل والدیه، قال: نعم، یسب أبا الرجل فیسب أباه ویسب أمه فیسب أمه. متفق علیه".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الاول،259/2 ،بشری)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا کوئی آدمی اپنے والدین کو گالی بھی دے سکتاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! آدمی کسی دوسرے کے والد کو گالی دیتاہے تو وہ بھی اس کے والد کو گالی دیتاہے، اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتاہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے۔ (بخاری ومسلم)

ایضا:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث،263/2،بشری)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔

ایضا:

 " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»".

 (مشکوٰۃ،  کتاب الاداب ،الفصل الثالث ،263/2،بشری)

         ترجمہ:  حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاؤگے)     

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں