بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی کفالت اولاد کے ذمے ہے


سوال

شوہر کا دو سال قبل انتقال ہوگیا، مرحوم کی والدہ حیات ہیں، مرحوم کے دو بالغ شادی شدہ بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی اسکے علاوہ دو شادی شدہ بھائی بیرون ملک رہتے ہیں اور ایک شادی شدہ بہن بھی بیرون ملک رہتی ہے۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ مرحوم کی والدہ کی کفالت کی ذمے داری بیوہ کی ہے یا دو بیٹوں اور بیٹی کی۔ واضح ہو کہ مرحوم کی والدہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے  لیے تینوں بیٹوں اور بیٹی کے پاس رہتی تھیں اور انتقال کے وقت مرحوم کے پاس تھیں پھر بیٹی اپنے ساتھ لے گئیں اور کچھ عرصے بعد دونوں بیٹوں نے اپنے پاس رکھا،  لیکن اب دو بیٹوں اور بیٹی کا کہنا ہے کہ  ان کو مرحوم کے گھر میں ہی رہنا  چاہیے تھا۔ اب بیوہ کے اوپر بلا وجہ کے الزامات لگا رہے ہیں اور مطعون کر رہے ہیں۔ شریعت کی روشنی میں راہنمائی  کیجیے کہ آیا مرحوم کی والدہ کی کفالت بیوہ کی ذمے داری ہے یا دو بیٹوں اور بیٹی کی؟ 

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں ساس کا درجہ  ماں کا ہوتا ہے، لہذا جس طرح اپنی ماں کی خدمت اور کفالت سعادت مندی سے کی جاتی ہے، اسی طرح اپنی ساس کی بھی کرنی چاہیے، تاہم شرعا یہ ذمہ داری حقیقی اولاد کی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم کی والدہ کی کفالت کی ذمہ داری شرعا ان کی زندہ اولاد پر ہے، تینوں بہن بھائیوں پر اپنی والدہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری برابر ہے، والدین کی خدمت کا موقع ملنا خوش قسمتی کی بات ہے، لہذا مرحوم  کے  بہن بھائیوں کو چاہیے کہ احسن طریقے سے اپنی  والدہ کی خدمت کا حق ادا کریں ،اسے بوجھ نہ سمجھیں والدہ کی بڑھاپے کی حالت میں خدمت  دین ودنیا کی فلاح اور کامیابی کا ذریعہ ہے ،تاہم اگر وہ بدقسمتی سے ایسا نہیں کرتے تو سائلہ اپنی سعادت اور آخرت کا ذخیرہ سمجھ کر اپنے مرحوم شوہر کی والدہ کی خدمت کرے اس پر وہ بہت زیادہ اجر وثواب کی مستحق ہوگی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويجبر ‌الولد ‌الموسر على نفقة الأبوين المعسرين مسلمين كانا، أو ذميين قدرا على الكسب، أو لم يقدرا بخلاف الحربيين المستأمنين، ولا يشارك الولد الموسر أحدا في نفقة أبويه المعسرين كذا في العتابية. اليسار مقدر بالنصاب فيما روي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وعليه الفتوى والنصاب نصاب حرمان الصدقة هكذا في الهداية.

 وإذا اختلطت الذكور والإناث فنفقة الأبوين عليهما على السوية في ظاهر الرواية، وبه أخذ الفقيه أبو الليث، وبه يفتى كذا في الوجيز للكردري"

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، ج:1، ص:564، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100609

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں