بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی خدمت کس پر لازم ہے؟ نیز والدہ کو استنجاء کون کرا سکتا ہے؟


سوال

بھائی یا بیٹے کی ماں کی خدمت کس پر واجب ہے؟ جب کہ سب شادی شدہ ہیں، بیٹی بھی اور بیٹا بھی اور والدہ کو واش روم لے جانے اور نہلانے کی ذمہ داری کس کی ہے اب؟

جواب

بوڑھے ماں باپ اگر نفقہ (خرچے) کے محتاج ہوں تو ان کا خرچہ بیٹے پر اس کی استطاعت کے مطابق معروف طریقے کے مطابق لازم ہوگا، اگر ایک بیٹا ہے تو  اسی کے ذمے ہوگا، ایک سے زائد ہیں تو ان پر تقسیم ہوگا۔  جہاں تک خدمت اور حسنِ سلوک کی بات ہے تو  اگر والدین خدمت کے محتاج ہوں تو ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بیٹے اور بیٹی دونوں پر ہے، کسی ایک پر خدمت کی مکمل ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، اس لیے کہ دونوں کے وجود کا سبب والدین بنے ہیں, یہاں تک کہ جب بیٹی کی رخصتی ہوجائے تو اس کے لیے بھی یہ حکم ہے کہ وقتاً فوقتاً والدین کی خبر گیری کرتی رہے۔

باقی جہاں تک والدہ کو واش روم لے جانے اور نہلانے کا سوال ہے تو یہ   ذمہ داری ان کے شوہر اٹھائیں، اور شوہرنہ ہونے کی صورت میں مذکورہ کام کوئی عورت (خواہ وہ بیٹی ہو یا کوئی اور) ادا کرے اور  والدہ صاحبہ خود اپنے ہاتھ سے استنجا کریں، کوئی غیر ان کا ستر نہ دیکھے، تاہم اگر وہ استنجا کرنے پر قادر نہ ہوں تو اس صورت میں استنجا کا حکم ساقط ہوجائے گا، البتہ اگر کوئی عورت استنجا کرانا چاہے تو اپنے ہاتھ پر کوئی کپڑا یا میڈیکل گلوز پہن کر کرائے، بغیر حائل کے ان کے ستر کو ہاتھ نہ لگائے۔

اوراگر والدہ صاحبہ خود استنجا نہیں کرسکتیں اور کوئی عورت دست یاب نہ ہو تو  بیٹے کو استنجا کرانے کی شرعاً اجازت نہیں، اس صورت میں استنجا ساقط ہوجائے گا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 341):
"والمرأة المريضة إذا لم يكن لها زوج وهي لاتقدر على الوضوء ولها بنت أو أخت توضئها ويسقط عنها الاستنجاء"

في ’’الدر المختار مع الشامیة‘‘:

"فلاتخرج إلا لحق لها أو علیها أو لزیارة أبویها کل جمعة مرةً أو المحارم کل سنة". (در مختار)

وفي الشامیة: (قوله: فلاتخرج الخ) وکذا فیما لو أرادت حجّ الفرض بمحرم، أو کان أبوها زمنًا مثلًا یحتاج إلی خدمتها ولو کان کافرًا ... (قوله: أو لزیارة أبویها) سیأتي في باب النفقات عن الاختیار تقییده بما إذا لم یقدرا علی إتیانها، وفي الفتح: أنه الحق. قال: وإن لم یکونا کذلك ینبغي أن یأذن لها في زیارتهما في الحین بعد الحین علی قدر متعارف". (۴/۲۹۳، کتاب النکاح،  باب المهر، مطلب في منع الزوجة نفسها لقبض المهر، ط : بیروت)فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں