ڈیفنس سوسائٹی میں 500گز کا گھر میری والد ہ کا ہے،والدہ کے نام پر ہے،والد صاحب کا انتقال 1990 میں ہوگیا تھا ، ہماری والدہ کا 2015میں انتقال ہوا ہے،ان کے ورثاء میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، ایک بیٹے کا انتقال 2006 میں والدہ کی حیات میں ہی ہوگیا تھا، جس کی بیوہ ،ایک بیٹا اور ایک بیٹی موجود ہیں،والدہ کے ترکہ میں جو گھر ہے وہ سات کڑور روپے میں فروخت ہورہاہے،ہم ورثا ء میں اس کی شرعی تقسیم کیسے ہوگی؟
انکم ٹیکس ،بروکر کی فیس اور گھر بیچنے کے سلسلے میں کاغذات کا جو خرچہ اور ہوا ہے اس کو کیسے تقسیم کریں گے؟
وضاحت:
والد صاحب کی حیات میں اور اس کے بعد جب تک والدہ زندہ رہیں اور اب بھی یہ گھر والدہ ہی کا سمجھا جاتا ہے،والد صاحب نے اس جگہ کو پلاٹ کی صورت میں 1982 میں اپنی کچھ رقم اور کچھ والدہ کی رقم ملا کر خریدا تھااور والدہ کو والد صاحب کی زندگی میں اور ان کے بعد بھی تمام مالکانہ اختیارات حاصل تھے،والد صاحب کے بعد گھر میں تعمیر ہوئی جوکہ والدہ کی رضامندی سےوالدہ نے ہی کروائی تھی۔باقی جن بیٹے کا انتقال ہوا ہے وہ چار بیٹوں میں سے ایک تھے،ابھی تین بیٹے حیات ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ مرحومہ نے اپنے ترکہ میں جو کچھ چھوڑا ہے،وہ والدہ کی وفات کے وقت زندہ بیٹے اور بیٹیوں میں حصص شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا،جبکہ 2006 میں جس بیٹے کی وفات والدہ کی زندگی میں ہوئی تھی،اس کی بیوہ اور اولاد کا دادی(سائل کی والدہ) کے ترکہ میں کوئی حق نہیں ہوگا،تاہم سائل اور اس کے دیگر بھائی بہن مرحوم بھائی کی بیوہ اور اولاد کو کچھ دینا چاہیں تو ہر ایک اپنے حصہ سے انہیں کچھ دے سکتا ہے،جو ان کی طرف سے تبرع اوراحسان ہوگا،بہر حال مرحومہ کے ترکہ سے ان کے حقوق متقدمہ (تجہیز وتکفین کے اخراجات)ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد، اگرانہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تواسے ایک تہائی ترکہ سے پوراکرنے کے بعد بقیہ کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 8حصوں میں تقسیم کرکے2,2 حصے ہر ایک زندہ بیٹے کو ا ور ایک ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا ۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت (مرحومہ والدہ):8
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 1 | 1 |
یعنی سو میں سے مرحومہ کے ترکہ کا25 فیصد ہر ایک بیٹے کو اور12.50 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
والدہ کی متروکہ جائیداد کی فروختگی پر آنے والے جملہ اخراجات کی ادائیگی وراثتی حصہ کے بقدر تمام ورثاء پر لازم ہوگی۔
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"(إذا احتاج الملك المشترك للتعمير والترميم فيعمره أصحابه بالاشتراك بنسبة حصصهم) الخلاصة: إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم."
(کتاب العاشر الشرکات، ج:3، ص:310، ط:دار الجيل)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144610102078
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن