میرا ایک عزیزہے، جس کی بیوی کا انتقال ہوگیاہے ، مرحومہ کے ورثاء میں شوہر،دو بیٹیاں ، ایک بھائی ، دوبہنیں تھیں ، مرحومہ کا کوئی بیٹانہیں ہے ، والدین بھی زندہ نہ تھے، پھر بھائی کاانتقال ہوا ورثاء میں بیوہ ا یک بیٹا ، تین بیٹیاں ہیں، پھر اس کے بعد بہن کا انتقال ہوگیا، ورثاء میں ، شوہر دو بیٹے دو بیٹیاں ہیں ، پھر اس کے بعد دوسری بہن کاانتقال ہوا،ورثاء میں شوہر دو بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں ، پھردوسری بہن کے شوہر کا انتقال ہوا ورثاء میں دوبیٹے دوبیٹیاں ہیں ، والدین زندہ نہیں تھے ۔
مرحومہ بیوی کی بیٹیوں کے بقول مرحومہ اپنی زندگی میں کہہ چکی ہے کہ میراجو کچھ ہے وہ میرے بیٹیوں کا ہے جبکہ مرحومہ نے زندگی میں بیٹیوں کو کسی چیز پر قبضہ وتصرف نہیں دیاتھا۔
واضح رہے کہ ہر وارث کا حصہ شریعت نے مقرر کردیاہے لہذا وارث کے حق میں وصیت شرعا معتبراور نافذالعمل نہیں ہوتی ، الا یہ کہ وارث کے لیے کی گئی وصیت پر عمل کرنے پر تمام عاقل بالغ ورثاء راضی ہوں ۔
صورت مسئولہ میں مرحومہ نے جویہ کہاہے کہ میراجو کچھ مال ہے ، میری بیٹیوں کا ہے، چوں کہ یہ وصیت ہے اور وارث کے لیے وصیت شرعامعتبرنہیں ، اس لیے مذکورہ وصیت مرحومہ کی بیٹیوں کے حق میں نافذ نہ ہوگی، ہاں اگر مرحومہ کی دیگر تمام عاقل بالغ ورثاء بیٹیوں کے حق میں کی گئی اس وصیت پر راضی ہوں تو اس وصیت پر عمل کرنا جائز ہوگا ، وگرنہ بیٹیاں صرف اپنے شرعی حصہ کی حق دار ہوگی ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية.
وفیہ ایضا :
ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة.
(کتاب الوصایا،ج:۶،ص:۹۰،ط:دار الفکر)
صورتِ مسؤلہ میں مرحومہ کے ترکے کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومہ کے حقوقِ متقدّمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعداور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کرنے کے بعدباقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو5760حصوں میں تقسیم کرکے مرحومہ کے شوہرکو0144حصے،اس کی ہر ایک بیٹی کو 1920،1920حصے،مرحومہ کے فوت شدہ بھائی کی بیوہ کو 30 حصے، اس کے بیٹے کو 84 حصے،اس کی ہرایک بیٹی کو42،42 حصے، مرحومہ کی فوت شدہ بہن کے شوہرکو30حصے ، اس کے ہر ایک بیٹے کو 30،30حصے ، اس کی ہرایک بیٹی کو 15،15حصے،مرحومہ کی فوت شدہ دوسری بہن کےہرایک بیٹے کو40،40حصے، اس کی ہرایک بیٹی کو20،20حصے ملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے :
میت:5760/960/48/12 مرحومہ بیوی
شوہر | بیٹی | بیٹی | بھائی | بہن | بہن |
3 | 4 | 4 | 1 | ||
12 | 16 | 16 | 2 | 1 | 1 |
240 | 320 | 320 | مرحوم | 20 | 20 |
1440 | 1920 | 1920 | مرحومہ | 120 | |
۔۔۔ | ۔۔۔ | ۔۔۔ | ۔۔ | ۔۔۔ | مرحومہ |
میت:20/40/8 بھائی مف1/2
بیوہ | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||
5 | 14 | 7 | 7 | 7 |
30 | 84 | 42 | 42 | 42 |
میت:6/24/4 بہن مف 5/20
شوہر | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 3 | |||
6 | 6 | 6 | 3 | 3 |
30 | 30 | 30 | 15 | 15 |
میت :1/6 شوہر،دوسری بہن مف20/120
بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 1 | 1 |
40 | 40 | 20 | 20 |
یعنی 100روپے میں سے مرحومہ کےشوہر کو25روپے، اس کی ہرایک بیٹی کو 33.333روپے، مرحومہ کےفوت شدہ بھائی کے بیوہ کو0.520 روپے، اس کے بیٹے کو 1.458روپے، اس کی ہر ایک بیٹی کو 0.729روپے ، مرحومہ کی فوت شدہ بہن کے شوہر کو 0.520روپے، اس کے ہرایک بیٹے کو 0.520روپے، اس کی ہر ایک بیٹی کو 0.260روپےاور مرحومہ کی دوسری فوت شدہ بہن کے ہرایک بیٹے کو 0.694روپے ، اس کی ہرایک بیٹی کو 0.347روپے ملیں گے ۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100584
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن