بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کا اپنا پلاٹ بیٹے کے نام کرنا


سوال

میں والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں اور ابا جی کا انتقال 2015 میں ہو چکا ہے، میری بھی جاب ہے، میری بیوی بھی ٹیچر ہے امی کی پنشن ہم دونوں سے اچھی ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ میں نے  امی کی پنشن سے ایک گھر اور ایک پلاٹ خرید اہے ،اس میں بیوی کے  کچھ پیسے  بھی شامل تھے اور پلاٹ میرے نام سے ہے، میری آٹھ بہنیں ہیں، اب یہ جو امی اور بیوی نے مجھے مختیار بنایا ہے، یا امی اور بیوی مجھے پیسے دیتے ہیں، یہ میرے لیے جائز ہیں؟ کیونکہ میری آٹھ بہنیں بھی ہیں ،اس میں 6 کی شادی ہوئی ہے،اور دو کنواری ہیں، اب امی اور بیوی مجھے پیسے دیتے  ہیں، میں اس میں پلاٹ وغیرہ، گھر کا خرچ، خوراک ،قربانیاں ،زکوٰۃ دیتا ہوں، اب اگر امی سارے پیسے مجھے دیتی ہیں تو کیا امی گناہگار تو نہیں ہوں گی؟ مطلب بہنوں کی حق تلفی تو نہیں کررہا ؟یا امی کو جائز حق ہے کہ وہ اپنا پنشن کسی ایک کو دے سکتی  ہیں؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا  اور کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنے فلاں بیٹے کو غلام دیتا ہوں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دوسرے کو؟ تو اس شخص نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ،کیا یہ وعید تو نہیں ہوگی امی کے لئے؟

جواب

واضح رہے کہ جو شخص زندگی میں اپنی  اولاد   کو کچھ ہبہ کرنا چاہے، شرعاً اس پر لازم ہے کہ  جتنا کسی ایک  کو ہدیہ کرے اتنا ہی باقیوں   کو بھی کرے،  کسی ایک بیٹے/ بیٹی کو   دے کر دوسروں کو محروم کرنا یا بغیر شرعی وجہ کے کسی ایک کو  دوسرے سے زیادہ دینا جائز نہیں ۔ہاں اگر کسی کی نیکی، فرمانبرداری یا محتاجی کی وجہ سے اس کو دوسروں کی بنسبت زیادہ دیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔

صورت مسئولہ میں   جو پلاٹ اور گھر سائل  نے اپنی والدہ کی پینشن کے پیسوں سے اور بیوی کے کچھ پیسے ملا کر خریدا ہے، چونکہ اس میں والدہ نے سائل کو محض خرچ وغیرہ اور دیکھ بھال کا مختار بنایا ہے(اور اس میں سے کچھ حصہ سائل کو کچھ حصے کا قبضہ دے کرمالک نہیں بنایا) تو اس  سے دیگر اولاد کے ساتھ کوئی نا انصافی لازم نہیں آتی۔ اسی طرح مذکورہ پلاٹ اگر  سائل کے نام محض رجسٹری کے طور پر کیا گیا ہے (مالک بنانے کیلئے نہیں کیا گیا)  تو اس سے سائل اس پلاٹ کا مالک نہیں بنا بلکہ سائل کی  والدہ اور بیوی (جنہوں نے اس پلاٹ کی خریداری میں پیسے شامل کئے ہیں)وہی اس کی مالک ہیں۔ اور اگر   پلاٹ خریدتے وقت ہی ان کا مقصود سائل  کو مالک بنانا تھا،  تو اس صورت میں مذکورہ پلاٹ کا مالک سائل ہوگا،اسی طرح والدہ کی رقم صرف سائل استعمال کرتا ہے، بہنوں کو والدہ سائل کی طرح رقم نہیں دیتیں تو اور ایسی صورت میں سائل کی والدہ کو چاہئےکہ وہ اپنی دیگر اولاد کو بھی اتنا ہی ہدیہ کریں  جتنا سائل کو کیا ہے، ورنہ دیگر اولاد کے ساتھ بلاوجہ ناانصافی کرنے کی وجہ سے وہ گناہگار ہوں گی۔ اور اگر پلاٹ خریدتے وقت سائل کو مالک بنانا مقصود نہیں تھا تو بھی سائل اس پلاٹ کا مالک نہیں بنا بلکہ والدہ ہی مالک رہیں گی۔

 الدر المختار میں ہے: 

"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.

شامی میں ہے:   

(قوله: وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي.

(ج5, ص ــــــ696،كتاب الهبة،ط: ایچ۔ ایم۔ سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك."

(کتاب الهبة، الباب الثاني في مايجوز من الهبة  ومالا يجوز ج:4، ص:377، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة."

)کتاب الہبہ ج:5 ،ص:689،ط:سعید)

فتاویٰ خلیلیہ میں ہے:

" اصل تو یہ ہے کہ دار مدار عقد کا عاقد کی نیت پر ہے، کہ بوقت عقد اگر اس نے نیت خریداری کی اپنے فرزندان نابالغ کیلئے کی تھی،تو ان کی ملک ہوگا، اور اگر کسی مصلحت سے فرضی طور پر اپنے نابالغ فرزندان کے نام  لکھوایا، اور بوقت شریٰ(خریداری)اپنے ہی لئے خریدنا مد نظر تھا، تو اس صورت میں وہ شئ خود عاقد کی ملک ہوگی۔۔۔الخ"

(فتاویٰ مظاہر العلوم المعروف ب"فتاویٰ خلیلیہ"، کتاب الہبۃ، ص: 269، ط: مکتبۃ الشیخ)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں