بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ولدالزنا کو امام بنانے کا حکم


سوال

تین طلاق کے بعد بغیر حلالہ شرعی کے دوبارہ  مسلک  تبدیل کرکے بیوی بناکر رکھ لیاجاۓاور بعد میں بچے بھی پیدا ہوں، تو کیا وہ حلال ہوں گے یا حرامی؟ وہ بچے اگر صحیح العقیدہ بن جائیں تو ان کے پیچھے نمازوں کاحکم کیاہوگا ؟ان کو امامت سونپنا کیساہوگا؟

جواب

بصورتِ مسئولہ شوہر کے تین طلاقیں دینے کے بعد بیوی شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی تھی،  جس کے بعد شوہر کو نہ رجوع کرنے کی اجازت تھی اور نہ ہی  اس غرض  سے مسلک تبدیل کرکے عورت کو بیوی بناکر رکھنا درست تھا، لہذا مذکورہ خاتون کا کہیں اور ازدواجی تعلقات کرنے سے قبل  سابقہ شوہر کے ساتھ رہنا اور ازدواجی تعلقات قائم کرنا حرام   تھا، مذکورہ مرد اور عورت دونوں بڑے گناہ  یعنی زنا کے مرتکب ہوئے،  جس پران دونوں کو  توبہ واستغفار کرکے فوراً علیحدگی اختیارکرنی چاہیے۔

چوں کہ اس دوران ساتھ   رہنا اور ازدواجی تعلقات قائم  کرنا  حرام عمل تھا،لہذا اس  دوران ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے پیدا ہونے والے بچے ولدالزنا ہوں گے۔

باقی اگر مذکورہ  ولدالزنا  بچے کی صحیح تربیت ہوئی ہے، اور وہ متقی وپرہیزگار ہے تو اس کو امام بنانا بغیر کراہت کے درست ہے، بلکہ ان صفات کے   ساتھ  بنسبت دوسروں کے  (یعنی جب کہ دوسروں میں اوصاف موجود نہ ہو) امام بنانا افضل اور بہتر ہے۔

فتاوی شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(وولد الزنا) هذا إن وجد غيرهم وإلا فلا كراهة بحر بحثًا.

(قوله: و ولد الزنا) إذ ليس له أب يربيه و يؤدبه و يعلمه فيغلب عليه الجهل بحر، أو لنفرة الناس عنه (قوله: هذا) أي ما ذكر من كراهة إمامة المذكورين (قوله: إن وجد غيرهم) أي من هو أحق بالإمامة منهم (قوله: بحر بحثًا) قد علمت أنه موافق للمنقول عن الاختيار وغيره."

(کتاب الصلوۃ، باب الامامۃ، ج:1، ص:562، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200422

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں