بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

قیامت کے دن ولد زنا بچوں کی نسبت


سوال

قیامت کے دن ولدزنا بچوں کو کس کی طرف منسوب کرکے بلایا جائے گا؟

جواب

قیامت کے دن ولد زنا بچوں کو بھی ان کے حقیقی باپ کے نام ہی سے پکارا جائے گا، احادیث میں مطلق یہی حکم ذکر فرمایا گیا ہے، جو کہ ان کو بھی شامل ہے۔ نیز علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس بات کی نفی کی ہے کہ  پردہ پوشی کے لیے ان کی ماؤں کا نام لیا جائے۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ."

کہ تم لوگ قیامت کے دن اپنے اور اپنے باپوں کے نام سے پکارے جاؤ گے تو اپنا نام اچھا رکھو۔

(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4948)

"الفصل العاشر في بيان أن الخلق يدعون يوم القيامة بآبائهم لا بأمهاتهم.

هذا الصواب الذي دلت عليه السنة الصحيحة الصريحة ، ونص عليه الأئمة كالبخاري وغيره فقال في صحيحه: باب يدعى الناس يوم القيامة بآبائهم لا بأمهاتهم ، ثم ساق في الباب حديث ابن عمر قال قال رسول الله: ( إذا جمع الله الأولين والآخرين يوم القيامة يرفع الله لكل غادر لواء يوم القيامة فيقال هذه غدرة فلان بن فلان ).

وفي سنن أبي داود [4948] بإسناد جيد عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ)

(“66تحفة المودود بأحكام المولود"، ص147)

"وقال ابن بطال: في هذا الحديث رد لقول من زعم أنهم لايدعون يوم القيامة إلا بأمهاتهم سترا على آبائهم.

ومن بدع التفاسير : أن الإمام جمع أم ، وأن الناس يدعون يوم القيامة بأمهاتهم، وأن الحكمة في الدعاء بالأمهات دون الآباء: رعاية حق عيسى عليه السلام، وإظهار شرف الحسن والحسين، وأن لايفتضح أولاد الزنا!! و ليت شعري أيهما أبدع: أصحة لفظه، أم بهاء حكمته !!؟

[الكشاف 2/682]

في هذا الحدیث رد لقول من زعم أنهم لایدعون یوم القیامة إلا بأمهاتهم سترًا علی آبائهم ... في التعریف وأبلغ في التمییز وبذلك نطق القرآن والسنة."

(فتح الباری: 10/563 ط:دارالمعرفة، بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں