بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے متروکہ پلاٹ میں تعمیر


سوال

ہمارے والد کا انتقال ہوگیاہے،   ورثاء میں بیوہ، دو بیٹےاور  تین بیٹیاں ہیں،  ترکہ میں ایک پلاٹ ہے ،تقسیمِ میراث  کا کیا طریقہ ہوگا؟

بڑے بھائی نے     اس پلاٹ میں  گراؤنڈ فلور،     ایک بہن نے   فرسٹ فلور  ، ہماری والدہ اور ایک دوسری بہن نے سیکنڈفلور      اپنے اپنے پییسوں سے دیگر ورثاء کی اجازت سے تعمیر کیا ہے،تعمیر کرنے والوں کو    ان کی خرچ کی ہوئی رقم ملے گی؟ تعمیر سے پہلے پلاٹ کی قیمت  سوا  کروڑ  تھی اور اب چار کروڑ ہے۔

جواب

1۔ سائل کے والد مرحوم کی    میراث کی تقسیم   کا شرعی طریقہ     یہ ہے کہ  سب سے پہلے مرحوم  کے کل ترکہ ميں سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر ان کے ذمہ کسی کا  قرض ہو تو   اس  کی ادائیگی کے بعد، اگر انہوں نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو  بقیہ مال کے ایک تہائی میں اس کو نافذ کرنے کے بعد  ، باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے8 حصے کرکے مرحوم کی بیوہ  اور تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک حصہ  اور  دو نوں بیٹوں  کو  دو   دو حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:8

بیوہ بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
122111

یعنی بیوہ  اور بیٹیوں میں سے ہر ایک   کو 12.50فیصد  اور دونوں بیٹوں  میں سے ہر ایک کو   25  فیصد ملے گا۔

2۔ والدہ اور مذکورہ  بہن بھائیوں   نے دوسرے ورثاء  کی اجازت سے     تعمیرات پر جتنے اخراجات کیےہیں  شرعا وہ اخراجات ان   کو ملیں گے،  اس کے بعد  باقی  گھر کی مالیت تمام ورثاء (بيوه ،دو بيٹوں اور تين بيٹيوں)میں شرعی قاعدہ کے مطابق تقسیم   ہوگی۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام ميں هے:

(إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك بإذن الآخروصرف من ماله قدرا معروفا فله الرجوع على شريكه بحصته أي أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف) إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة:

الاحتمال الأول - أن يكون المعمر صرف بإذن وأمر الشريك الآخر من ماله قدرا معروفا وعمر الملك المشترك للشركة أو أنشأه مجددا فيكون قسم من التعميرات الواقعة أو البناء ملكا للشريك الآمر ولو لم يشترط الشريك الآمر الرجوع على نفسه بالمصرف بقوله: اصرف وأنا أدفع لك حصتي من المصرف۔

(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام  3/ 313،ط:دارالجيل,کتاب الشرکات ،باب  بیان النفقات)

                                    فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں