ہمارے والد کا انتقال ہوگیاہے، ورثاء میں بیوہ، دو بیٹےاور تین بیٹیاں ہیں، ترکہ میں ایک پلاٹ ہے ،تقسیمِ میراث کا کیا طریقہ ہوگا؟
بڑے بھائی نے اس پلاٹ میں گراؤنڈ فلور، ایک بہن نے فرسٹ فلور ، ہماری والدہ اور ایک دوسری بہن نے سیکنڈفلور اپنے اپنے پییسوں سے دیگر ورثاء کی اجازت سے تعمیر کیا ہے،تعمیر کرنے والوں کو ان کی خرچ کی ہوئی رقم ملے گی؟ تعمیر سے پہلے پلاٹ کی قیمت سوا کروڑ تھی اور اب چار کروڑ ہے۔
1۔ سائل کے والد مرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے کل ترکہ ميں سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر ان کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد، اگر انہوں نےکوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے ایک تہائی میں اس کو نافذ کرنے کے بعد ، باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے8 حصے کرکے مرحوم کی بیوہ اور تین بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک حصہ اور دو نوں بیٹوں کو دو دو حصے ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت:8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 |
یعنی بیوہ اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 12.50فیصد اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 25 فیصد ملے گا۔
2۔ والدہ اور مذکورہ بہن بھائیوں نے دوسرے ورثاء کی اجازت سے تعمیرات پر جتنے اخراجات کیےہیں شرعا وہ اخراجات ان کو ملیں گے، اس کے بعد باقی گھر کی مالیت تمام ورثاء (بيوه ،دو بيٹوں اور تين بيٹيوں)میں شرعی قاعدہ کے مطابق تقسیم ہوگی۔
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام ميں هے:
(إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك بإذن الآخروصرف من ماله قدرا معروفا فله الرجوع على شريكه بحصته أي أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف) إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة:
الاحتمال الأول - أن يكون المعمر صرف بإذن وأمر الشريك الآخر من ماله قدرا معروفا وعمر الملك المشترك للشركة أو أنشأه مجددا فيكون قسم من التعميرات الواقعة أو البناء ملكا للشريك الآمر ولو لم يشترط الشريك الآمر الرجوع على نفسه بالمصرف بقوله: اصرف وأنا أدفع لك حصتي من المصرف۔
(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام 3/ 313،ط:دارالجيل,کتاب الشرکات ،باب بیان النفقات)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100514
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن