بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

والد اپنی زندگی میں کسی بیٹے کو کوئی چیز ہبہ کرنے کاحکم


سوال

 اگر کوئی شخص اپنے کسی بیٹے کو کوئی چیز زندگی میں وراثت کہہ کردے اور سامنے والا قبول کرلے، تو اس کا کیاحکم ہے؟اگر  اس   چیز کو بیٹا قبول کرے اور اسے استعمال کرے  وہ والد  کے انتقال کرجانے تک ہبہ ہوگی یا عاریت یا کچھ اور؟  اگر قبول کرنے والا والد کے انتقال کے بعد اس چیز سے انکار کردے اور مکمل جائیداد میں شامل ہونا چاہیے تو اس کا یہ عمل کیسا ہے؟ اگر کسی صورت نہ مانے تو کیا ہوگا؟ اگر اسے جائیداد میں حصہ دینا ضروری ہوجائے تو اس کی ترتیب کیا ہوگی۔ جائیداد میں شامل کرنے کے لیے دیگر ورثا کی رضامندی شرط ہے یا نہیں۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر والدنےاپنی زندگی میں بیٹے  کو  کوئی چیز اس شرط پر دی ہو کے آپ میری زندگی میں یہ چیز بطور میراث لے لو اور آیندہ ترکہ میں آپ کا حصہ نہیں ہوگا اور بیٹے نے یہ بات قبول کر کے وہ چیزیں لے لی ہوں تو پھرمعاہدہ کے مطابق بیٹے  کو اپنے والد کی میراث میں سے حصہ لینے کا حق نہیں ،تاہم اگر یہ چیز  صرف میراث کہہ کردی تھی باقی کوئی معاہدہ نہیں ہواتھا تو اب والد کے انتقال کے بعد والد کی میراث تقسیم کرتے وقت مذکورہ بیٹے کو دیا جانے والا حصہ بھی میراث میں  شامل کیا جائے گا،اگر اس بیٹے کا حصہ اس چیز کی مالیت سے زیادہ بننا ہوتو اس بیٹے کو اضافی حصہ  دیاجائے،باقی اگر تمام ورثاء باہمی رضامندی سے نئے سرے سے تقسیم پرراضی ہوئی تو والدنے جوچیز اس بیٹے کودی تھی وہ بھی میراث سے شامل کرکے والدکے تمام ترکہ کو شرعی حساب سے تقسیم کیا جا سکتاہے۔

فتاوی شامی میں ہے: 

" قال القهستاني: واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئاً كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل: هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته، فحينئذٍ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه، كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل: جاز، وبه أفتى بعضهم، وقيل لا ".

(کتاب الوصایا،ج:6،ص:655،ط: دار الفکر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں