بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل سے ایک طلاق کا طلاق نامہ بنانے کا کہا اس نے تین کا بنادیا


سوال

میں نے طلاق نامہ بنوانے  والے سے  ''ایک '' طلاق    نامہ بنوانے کا کہا تھا ،میری دو شادیاں ہیں ،اس کو ڈرانے کے لئے میں  نے اس کو ایک طلاق نامہ بنوانے کا کہا، لیکن اس جاہل نے تین طلاق نامہ بنوایا تھا،البتہ مجھے جو شبہ ہوا وہ دور کرنا ہے کہ طلاق نامہ پر میں نے کوئی دستخط نہیں کیے ہیں اور  نہ میں نے زبانی طلاق دی ہے، اس طلاق نامہ کو اس (طلاق نامہ بنانے والے )نے خود بھردیا ہےاور اس میں دستخط کی جگہ میرا نام بھی اس نے لکھا ہے۔

کیا اس کاروائی سے کوئی طلاق تو نہیں ہوئی؟میرا مقصد خالی طلاق نامہ بنوانا تھا ؛تاکہ میری دوسری بیوی ڈر جائے اور سدھر جائے۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر  سائل  نے واقعۃ  طلاق نامہ بنانے والے کو  بیوی کو ڈرانے کے لئے  ایک طلاق والا طلاق نامہ بنانے کا کہا تھا  اور اس نے تین والا طلاق نامہ بنادیا لیکن سائل نے اس پر نہ  دستخط کیے  اور نہ اس پررضامندی کا اظہار کیا  تو اس صورت میں طلاق نامہ میں ذکر کردہ بیوی(مسماۃ عاصمہ)پر ایک طلاق  رجعی واقع ہوگئی ،طلاق رجعی میں شوہر کو  اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع  کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور نکاح برقرار  رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح  ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی  گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو ایک طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اس کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"ٍوإذا قال لغیرہ : ’’ طلق امرأتي واحدۃ رجعیۃ ‘‘ فطلقہا واحدۃ بائنۃ ۔ أو قال لہ : ’’ طلقہا واحدۃ بائنۃ ‘‘ فطلقہا واحدۃً رجعیۃً تقع تطلیقۃً واحدۃً علیٰ حسب ما أمرہ الزوج ۔ ذکرہ في الأصل ۔ وفي الولوالجیۃ : رجل وکّل وکیلاً أن یطلق امرأتہ ، فطلق الوکیل ثلاثًا ؛ فإن نویٰ الزوج ثلاثًا صح ، وإن لم ینو لا یصح عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ۔"

(الفتاوی التاتارخانیۃ ،کتاب الطلاق،نوع آخر فی تفویض الطلاق،(349/3)ط:ادارۃ القرآن)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100671

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں