ایک سفید پوش شخص جو حالات کی چکی میں پس گیا ہو اور سفید پوشی کی وجہ سے کسی کو بتا بھی نہ سکتا ہو، کسی صاحبِ حیثیت سے کسی دوسرے دوست کو دینے کا کہہ کر زکات لے سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص اپنے دوست سے یہ کہہ کر زکات لے کہ یہ میں ایک مستحق دوست کو دے دوں گا تو اس صورت میں اس کے لیے یہ رقم اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کے دوست نے جو اس کو زکات کی رقم دی ہے وہ وکیل بنا کر دی ہے کہ یہ میری زکات ادا کردو، اور وکیل اگر مستحق بھی ہو زکات لینے کاتب بھی وہ اسے اپنے استعمال میں نہیں لا سکتا، البتہ اگر اس کے دوست نے اس سے یہ کہا ہو کہ "جوچاہے کرو اور جسے چاہے دو"، تو اس صورت میں سائل کے لیے اپنی ذات پر استعمال کرنا جائز ہوگا، یا مذکورہ سفید پوش آدمی صاحب حیثیت آدمی سے یہ کہے کہ ایک مستحق زکات آدمی کے تعاون کے لیے زکات وغیرہ دیں، پھر اگر وہ دے دیں تو مذکورہ سفید پوش آدمی خود بھی اپنی ذات پر استعمال کرسکے گا۔
البحر الرائق میں ہے:
"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اهـ.إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية".
(كتاب الزكاة، 211/2، ط: سعيد)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
"وفي الجامع الأصغر: سئل الشيخ ...دفع زكاة ماله إلى رجل.......وفي الخانية:ولا يمسك لنفسه شيئا جاز."
(كتاب الزكاة، الفصل التاسع في المسائل المتعلقة بمعطي الزكاة، 283/2-284، ط: إدارة القرآن)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144409101019
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن