اگر میں کسی کو پیسے دوں کہ بازار سے مجھے فلاں چیز لادو اور وہ چیز تو لادے مگر اس میں سے خود بھی پیسے رکھ لے اور مجھے زیادہ قیمت بتا دے تو کیا یہ پیسے جو اس نے بغیر پوچھے لیے ہیں وہ جائز ہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کسی سے کوئی چیز منگواتا ہے تو اس صورت میں اس شخص کی حیثیت وکیل بالشراء(خریداری کے وکیل) کی ہوگی اور وکیل امین کے حکم میں ہوتا ہے ،لہذا اس صورت میں مذکورہ شخص کے لیے کم قیمت پر کوئی چیز خرید کر سائل (موکل) سے زیادہ قیمت لینا جائز نہیں ہوگا،ہاں اگر پہلے سے طے کرے کہ میں سامان لانے کی اتنی اجرت لوں گا اور سائل اس پر راضی ہو تو الگ سے یہ اجرت لے سکتاہے ۔
شرح المجلۃ میں ہے:
"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."
(كتاب الوكالة،الباب الثالث في بيان احكام الوكالة ، المادة 1463، ج:3، ص:561، ط:دارالجيل)
وفيه ايضاّ:
"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".
(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان احكام الوكالة،المادة:1467،ج:3،ص:573،ط:دارالجیل)
مبسوط سرخسی میں ہے:
"وليس للمودع حق التصرف والاسترباح في الوديعة."
(كتاب الوديعة ج:11، ص:122، ط:دارالمعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100492
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن