بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالشراء کا کم قیمت پر خرید کر اپنے مؤکل کو زیادہ قیمت پر دینے کا حکم


سوال

میں کمپنی کا ملازم ہوں اور اپنی کمپنی کے تمام کام دیکھتاہوں ،جب کہ مجھے  کمپنی کی طرف سے تنخواہ ملتی  ہے، کمپنی اسلام آباد میں ہے اور میں کراچی  میں ہوں، ان کو جو کچھ بھی  ضرورت ہوتی ہے تو میں  اپنے پیسوں سے خرید کر کے بھیجتاہوں، اور  وہ  مجھے مہینے کے آخر میں پیسے واپس  کردیتي ہے۔

سوال یہ ہے کہ:

1۔ اگر کوئی چیز( 10) روپے کی بازار میں ملتی ہے اور میں کسی طرح اس کو( 8) روپےمیں حاصل کرکے اپنی کمپنی کو( 9)روپے میں دے دوں کیا یہ نفع حلال ہوگا؟

2۔اگر یہ(1 )روپیہ سے کسی  ضرورت مند کی ضرورت پوری کردوں  یا خود استعمال کروں تو کیا یہ جائز ہے؟

3:اگر جائز نہیں اور  یہ رقم میں وصول کرچکاہوں تو اس کو کیا کروں؟ اور یہ بات میں ان کو نہیں بتاسکتا۔

نوٹ: واضح رہے کہ کمپنی صرف چیزیں منگواتی ہے،  ریٹ وغیرہ متعین نہیں ہوتا۔

جواب

1:واضح رہے کہ کمپنی جب سائل سے کوئی چیز منگواتی ہے   اور اس کی مد میں اس کو تنخواہ بھی  دیتی ہے تو اس صورت میں سائل کی حیثیت وکیل بالشراء(خریداری کے وکیل) کی ہوگی اور وکیل  امین کے حکم میں  ہوتا ہے ،لہذا  کم قیمت پر کوئی چیز خرید کر مؤکل سے زیادہ قیمت لینادھوکہ دہی اور جھوٹ ہونے کی وجہ سے    حرام ہے ۔

3-2: سائل نے کمپنی کو بتائے بغیر جو ایک روپیہ اپنے پاس  رکھا ہے وہ کمپنی کو واپس کرنا ضروری ہے، کمپنی کی  اجازت کے بغیر خود استعمال کرنا یا کسی ضرورت مند کو دینا جائز نہیں۔

شرح  المجلۃ  لسلیم رستم باز میں ہے:

"المادة (1463) - (‌المال ‌الذي ‌قبضه ‌الوكيل ‌بالبيع ‌والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

[كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة، ج:2، ص:613،ط:مكتبة رشيدية]

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"وإذا كان في عهدة المكلف مال حرام، فإن علم أصحابه وجب رده إليهم، وإن لم يعلم أصحابه يتصدق به،أما الآخذ أي: المتصدق عليه فإن عرف أن المال المتصدق به من النجس أو الحرام كالغصب، أو السرقة، أو الغدر، فيستحب له أن لا يأخذه ولا يأكل منه. ومع ذلك فقد أجاز أكثر الفقهاء أخذه له مع الكراهة...يقول ابن عابدين: إذا كان عليه ديون ومظالم لا يعرف أربابها، وأيس من معرفتهم، فعليه التصدق بقدرها من ماله، وإن استغرقت جميع ماله."

[المسوعة الفقهية الكويتية، ج:26، ص:335، ط: دار الصفوة مصر]

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں