بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالشراء کا کسی متعین چیزکو موکل کے لیے خرید نے کے بعد اپنی ملکیت میں لینے کا حکم


سوال

           ہم تین ساتھی ایک کمپنی کو چلا رہے تھے اور تینوں کا کاروبار برابر برابر کا تھا، جن میں سے ایک ساتھی نے کہا کہ آپ مجھے کمپنی سے پیسے دیں میں ایک بڑا سا پلاٹ خرید کر اس پر اسکول بناتا ہوں اور جو پیسے آئیں گے وہ ہم تینوں تقسیم کر لیا کریں گے، مگر جب پلاٹ خرید لیا تو اس ساتھی کی نیت بدل گئی اور اسکول بنانے سے انکار کردیا اور یہ کہا کہ یہ پلاٹ آپ لوگ میرے کھاتے میں لکھ لیں اور یہ پلاٹ میرا ہو گیا، کیا میرے ساتھی کا یہ عمل درست ہے؟ اَز  راہِ  کرم قرآن و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں !

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعتًا  سائل  کا بیان درست ہے تو  سائل کے ساتھی کا مذکورہ عمل شرعًا  درست  نہیں ہے۔

              باقی مذکورہ  پلاٹ کے خریدنے میں  چوں کہ تینوں شرکاء نے پیسے  ملائے ہیں اس لیے تینوں شرکاء  اپنے اپنے حصے  کے بقدر اس کے مالک ہیں،تینوں میں سے کوئی ایک شریک بھی دوسرے شرکاء کی رضامندی کے بغیر  اس پلاٹ کو اپنے کھاتے میں لکھوانے سے  اس  پورے پلاٹ کا مالک نہیں بنے گا۔

المبسوط للسرخسی میں  ہے:

"(ثم) الشركة نوعان: شركة الملك و شركة العقد. (فشركة الملك) أن يشترك رجلان في ملك مال، وذلك نوعان: ثابت بغير فعلهما كالميراث، وثابت بفعلهما، وذلك بقبول الشراء، أو الصدقة أو الوصية. والحكم واحد، وهو أن ما يتولد من الزيادة يكون مشتركا بينهما بقدر الملك، وكل واحد منهما بمنزلة الأجنبي في التصرف في نصيب صاحبه."

(كتاب الشركة،ج:11،ص:151،ط:دار المعرفۃ،بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100285

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں