بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کوزکوہ دینے والے کی زکوۃ کب ادا ہوتی ہے؟


سوال

گزارش یہ ہے کہ ہمارا ایک ادارہ ہے ،عرصہ دراز سے عوام الناس کی خدمت کر رہا ہے،اس ادارے میں زکوۃ کے مستحق لوگوں کی زکوۃ کے فنڈ سے فری علاج کیا جاتا ہے،ہمیں ہر سال اہلِ خیرحضرات رمضان میں زکوۃ دیتے ہیں،ادارے کا اپنا بینک  اکاؤنٹ ہے ،جس میں لوگ پیسے جمع کرتے ہیں ،اور پھر بوقتِ علاج ہم مریض سے ایک فارم پر دستخط لیتے ہیں ،جس کے ذریعے وہ ہمیں اپنا وکیل بنا لیتا ہے،ہم نے اس ہسپتال کو ازسرنو دوبارہ تعمیر کروایا ہے،جس میں گراؤنڈ فلور اور میزنائن فلور پر ہسپتال ہےاور اوپر تین منزلہ فلیٹ بنائے ہیں،اس تعمیر میں کچھ پیسے زکوۃ کے تھے اور کچھ اپنے ذاتی تھے۔

عرض یہ ہے کہ ہمارے پاس 7سے 8 سال پرانے لوگوں کی زکوۃ موجود تھی اور ہم نے اس زکوۃ کے پیسوں کو اپنے ہسپتال بنانے میں استعمال کیا ،ہسپتال ازسرِ نو تیار ہوئے چار سال ہو گئے ہیں،اب ہم نے زکوۃ کے پیسوں کو فلیٹس(جو ہسپتال کے اوپر بنائی تھیں) وغیرہ بیچ کر اور ایک پراپرٹی اور ہے،اس کا کرایہ وغیرہ جمع کرنےکے بعد زکوۃ کی جو رقم لی تھی جوکہ  68لاکھ روپے تھے ،واپس جمع کرلیے ہیں۔قرآن وحدیث کی روشنی میں بتائیں کہ 7،8 سال سے جو لوگوں کی زکوۃ کی رقم جو کہ ہم نے اپنے پاس جمع رکھی ہے،آیا ان لوگوں کی زکوۃ ادا ہوئی یا نہیں؟ ہم گناہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟

وضاحت: ہسپتال کی زمین ہسپتال  کے لیے وقف کی گئی ہے،اور اس کے اوپر جو فلیٹس بنائے گئے ہیں ،ان کی تعمیرمیں کچھ رقم کمیٹی والوں کی  اور کچھ  زکوۃ کی لگائی گئی ہے،بعد میں یہ فلیٹس مالکانہ حقوق کے ساتھ فروخت کرکے اس کی قیمت میں سے زکوۃ کی رقم واپس لوٹائی گئی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب تک مذکورہ ادارہ مریضوں پر زکوۃ کی رقم خرچ نہیں کرے گا اس وقت تک زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی،اور مریض پر خرچ ہونے  تک زکوۃ کی ادائیگی میں تاخیر کا چونکہ زکوۃ دینے والوں کو علم ہوتا ہے،اس لیے  اس تاخیر پر ادارے کا عملہ گناہ گارنہیں ہوگا، البتہ ادارے والوں کو چاہیے کہ جلد ازجلد زکوۃ کی رقم کو اس کے مصرف میں خرچ کریں تاکہ زکوۃ ادا کرنے والوں کاذمہ فارغ ہو جائے،بلا عذر زکوۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا مکروہ ہے، اگر سال سے زیادہ تاخیر  کی تو  زکوۃ ادا کرنے والے(ایک قول کے مطابق )گناہ گار ہوں گے، البتہ  اگر کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو  شرعاً اس کی گنجائش ہے، اور عذر  زائل ہوتے  ہی اس کو جلد از جلد ادا کردینا چاہیے؛ کیوں کہ زکات دینی فریضہ ہے اور اس سے جلد سبک دوشی افضل ہے،تاہم زکوۃ کی مد میں جمع شدہ رقم کو تعمیر میں استعمال کرنا جائز نہیں،اس لیے ادارے کے عملے نے زکوۃ کی جتنی  رقم تعمیر میں لگائی تھی ، اسی کے بقدر رقم  کے  وہ لوگ ضامن ہیں اور وہ رقم اصل مالکان کی اجازت کےساتھ مستحق مریضوں پر  خرچ کرنا لازم ہے، اور ادارے والوں پر لازم ہے کہ جو عمل وہ کرچکے تھے اس پر استغفار کریں اور آئندہ کے لیے اس سے اجتناب کریں۔

باقی ہسپتال کی زمین چوں کہ وقف ہے،لہذا اس کے اوپر جو فلیٹس بنائے گئے ہیں اس کا فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں، ادارے والوں پر لازم ہے کہ ان کی قیمت خریداران کو واپس کرکے  وہ فلیٹس واپس لے لیں اور ان کو ہسپتال  کے مصالح اور ضرویات میں استعمال کریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وافتراضها ‌عمري) أي: على التراخي وصححه الباقاني وغيره (وقيل: فوري) أي واجب على الفور (وعليه الفتوى) كما في شرح الوهبانية (فيأثم بتأخيرها) بلا عذر....

(قوله :وافتراضها عمري) قال في البدائع وعليه عامة المشايخ، ففي أي وقت أدى يكون مؤديا للواجب، ويتعين ذلك الوقت للوجوب، وإذا لم يؤد إلى آخر عمره يتضيق عليه الوجوب، حتى لو لم يؤد حتى مات يأثم واستدل الجصاص له بمن عليه الزكاة إذا هلك نصابه بعد تمام الحول والتمكن من الأداء أنه لا يضمن، ولو كانت على الفور يضمن كمن أخر صوم شهر رمضان عن وقته فإن عليه القضاء.(قوله: وصححه الباقاني وغيره) نقل تصحيحه في التتارخانية أيضا (قوله :أي واجب على الفور) هذا ساقط من بعض النسخ، وفيه ركاكة لأنه یؤول إلى قولنا: افتراضها واجب على الفور مع أنها فريضة محكمة بالدلائل القطعية وقد يقال: إن قوله افتراضها على تقدير مضاف أي: افتراض أدائها، وهو من إضافة الصفة إلى موصوفها فيصير المعنى أداؤها المفترض واجب على الفور: أي أن أصل الأداء فرض، وكونه على الفور واجب، وهذا ما حققه في فتح القدير من أن المختار في الأصول أن مطلق الأمر لا يقتضي الفور ولا التراخي بل مجرد الطلب فيجوز للمكلف كل منهما لكن الأمر هنا معه قرينة الفور إلخ ما يأتي (قوله: فيأثم بتأخيرها إلخ) ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان. وقد يقال المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل لما في البدائع عن المنتقى بالنون إذا لم يؤد حتى مضى حولان فقد أساء وأثم اهـ فتأمل"

(کتاب الزکوۃ،271،272/2ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين"

(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها،170/1ط:دارالفکر)

الدر مع الرد ميں ہے:

"‌و يشترط ‌أن ‌يكون ‌الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)."

(کتاب الزکوۃ،باب المصرف،344/2ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وعندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، ولا يباع ولا يوهب ولا يورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."

(كتاب الوقف،الباب الأول في تعريفه وركنه وسببه وحكمه وشرائطه والألفاظ التي يتم بها الوقف وما لم يتم بها2 / 350، دارالفكر)

امدادالاحکام میں ہے:

"قاعدہ یہ ہے کہ محض وکیل کو دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی،جب تک کہ وکیل اس کو مستحقین میں صرف نہ کرے،پس اگر وکیل ثقہ،معتبر ،دین دار ہے جس پر اطمینان ہے کہ وہ مستحقین میں صرف کرے گا،غیر مستحقین کو نہ دے گا،اس وکیل کو رقم دے کر مؤکل اپنے کو فرض زکوۃ سے سبکدوش سمجھ سکتا ہے....."

(کتاب الزکوۃ،9/2ط:دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100505

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں