بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالشراء کا کچھ سامان اپنے لیے رکھنے کا حکم


سوال

وکیل بالشراء کو مبیع کے ساتھ بائع نے کچھ مفت سامان دیا اور موکل کو اس کا علم نہیں ہے تو کیا وکیل بالشراء مفت ملا ہوا سامان اپنی ملکیت میں رکھ سکتا ہے یا موکل کو دینا ضروری ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں بائع نے مبیع کے ساتھ جو مفت سامان دیا ہے وکیل کے لیے وہ سامان موکل کو دینا ضروری ہے، موکل کو بتائے بغیر اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے؛  اس لیے کہ وکیل امین ہوتا ہے اور امین کے لیے خیانت کرنا جائز نہیں ہے۔

شرح  المجلۃ  لسلیم رستم باز میں ہے:

"المادة (1463) - (‌المال ‌الذي ‌قبضه ‌الوكيل ‌بالبيع ‌والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة، ج: ۲، صفحہ: ۶۱۳، ط:مكتبة رشيدية)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"وإذا كان في عهدة المكلف مال حرام، فإن علم أصحابه وجب رده إليهم، وإن لم يعلم أصحابه يتصدق به،أما الآخذ أي: المتصدق عليه فإن عرف أن المال المتصدق به من النجس أو الحرام كالغصب، أو السرقة، أو الغدر، فيستحب له أن لا يأخذه ولا يأكل منه. ومع ذلك فقد أجاز أكثر الفقهاء أخذه له مع الكراهة...يقول ابن عابدين: إذا كان عليه ديون ومظالم لا يعرف أربابها، وأيس من معرفتهم، فعليه التصدق بقدرها من ماله، وإن استغرقت جميع ماله."

(المسوعة الفقهية الكويتية، ج: ۲۶، صفحہ: ۳۳۵، ط:  دار الصفوة مصر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504100467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں