بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کا کمپنی کے لیے خریداری کرتے ہوئے فروخت کنندہ سے کمیشن لینا


سوال

 ایک کمپنی جس کا نام (SANDISK) ہے، اس میں ملازمت کرتا ہوں، میں اس کمپنی میں بطور ریجنل سیلز(علاقائی فروخت) مینیجر کی پوسٹ پر ہوں، اس میں میرے پاس مارکیٹنگ(تشہیر و گاہک سازی) کا بجٹ خرچ کرنے کا مکمل اختیار ہے ، مگر کمپنی کی طرف سے کسی بھی وینڈر(فروش) کو بل کی ادائیگی میں تین سے چار ہفتے لگ جاتے ہیں جب کہ جتنی بھی مارکیٹنگ ایجینسیاں ہیں یا تو وہ ایڈوانس کام کرتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ  ایک ہفتہ کا کریڈٹ(ادھار) کرتی ہیں۔

اب اس میں پوچھنا یہ ہے کہ  کمپنی کی اس ضرورت کو پورا کرنے کےلئے میں اور میرے کچھ دوست انویسمنٹ ملا کر ایک کمپنی بنالیں جس میں ہم اس کمپنی کو ادھار میں مطلوبہ کام کروادیں،اس سے ہمیں کچھ نفع بھی مل جائے گااور کمپنی کو ہم یہ کام ادھار میں کردینگے، یہ بات بھی واضح رہے ہم کمپنی سے مارکیٹ ریٹ ہی چارج کریں گےیااس سے کم میں کروا دیں گے اور اپنا نفع ہم مارکیٹ میں ریٹ کم کروا کر حاصل کرینگے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ شرعی طور پر میرا یہ کام کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل جب کہ مذکورہ کمپنی کا ملازم ہے اور تجویز کردہ طریقہ کار میں جدید کمپنی میں سائل خود بھی شریک بنے گا ،اور اس کا نفع بھی سائل کو لوٹے گا حالاں کہ ملازم کی حیثیت کمپنی کے وکیل کی ہے اور اس کے لیے کمپنی کی طرف سے دی گئی ذمہ داریوں میں اپنا نفع رکھنا جائز نہیں،لہذا مذکورہ طریقہ پر سائل کے لیے  نئی کمپنی بنا کر  نفع رکھ کر کام کرنا جائز نہیں ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

"اختلف الفقهاء في حكم شراء الوكيل لموكله من ماله الخاص به، أو من مال الذين لا تقبل شهادتهم للوكيل..فذهب الحنفية إلى أن الوكيل بالشراء لا يملك الشراء من نفسه لموكله، حتى ولو أذن له الموكل في ذلك، لأن الحقوق في باب البيع والشراء ترجع إلى الوكيل، فيؤدي ذلك إلى الإحالة، وهو أن يكون الشخص الواحد ‌في ‌زمان ‌واحد ‌مسلما ‌ومتسلما، مطالبا ومطالبا، ولأنه متهم في الشراء من نفسه".

(‌‌شراء الوكيل لموكله سلعة مما يملكه الوكيل أو ممن لا تقبل شهادتهم له،٥١/٤٥،ط وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"وإذا ‌قبض ‌الوكيل الدار لم يكن له أن يؤاجرها ولا يرهنها ولا يسكنها أحدا؛ لأنه إنما وكل بالخصومة فيها وبقبضها، وهذه التصرفات وراء ذلك فهو فيها كأجنبي آخر، وإن ادعى رجل فيها دعوى فهو خصم فيها؛ لأنه وكله بالخصومة فيها ولم يسم في الوكالة أحدا بعينه، فإن كان سمى في الوكالة إنسانا لم يكن له أن يخصم غيره؛ لأن التخصيص في الوكالة".

‌‌[باب كتاب القاضي إلى القاضي في الوكالة،٢٧/١٩،ط : دار المعرفة]

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة."

(كتاب الإجارة،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،٦٩/٦،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"والخاص لا يمكنه أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة للمستأجر والأجر مقابل بالمنافع ولهذا يبقى الأجر مستحقا وإن نقض العمل ،قال أبو السعود: يعني وإن نقض عمل الأجير رجل."

(کتاب الاجارۃ،باب ضمان الاجارۃ،٦٤/٦،ط:سعید)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"ويستحيل أن يكون الشخص الواحد في زمان واحد مسلما ومتسلما، ‌طالبا ‌ومطالبا، مملكا ومتملكا، مما يوجب أن يكون العقد من طرفين، لكل منهما إرادته وعبارته والتزامه، لا من شخص واحد ليس له إلا إرادة واحدة."

(النظريات الفقهية،تعريف العقد،العقد بإرادة منفردة،2925/4،ط:دار الفكر)

العقود الدریہ میں ہے:

"لأن ‌الأجير ‌أمين."

(كتاب العارية،ج:2،ص:83،ط:دار المعرفة)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101917

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں