بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالصدقہ کا صدقہ کی رقم کو خرچ کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے زید کو نفلی صدقہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ "آپ یہ صدقہ (رقم وغیرہ) کسی بھی محتاج اور ضرورت مند کو دیں"یا "آپ یہ صدقہ کسی بھی محتاج اور ضرورت مند پر خرچ کریں" یا" کسی بھی مستحق کو دیں" یا اس موکل (شخص مذکور) نے زید کو یہ کہتے ہوئے نفلی صدقہ دیا کہ "جہاں آپ چاہیں اسے خرچ کردیں" یا "جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے خرچ کریں" یا" جس شخص کو آپ مناسب سمجھیں، دیں" یا شخص مذکور نے یہ کہتے ہوئے زید کو نفلی صدقہ دیا کہ" فلاں مدرسے کے طلبہ یا فلاں مدرسے میں اسے خرچ کریں" تو کیا ان تمام صورتوں میں وکیل یعنی زید یہ نفلی صدقہ بغیر کسی کو دیے اپنی ذات پر خرچ کرسکتا ہے جب کہ وہ بھی خود ضرورت مند اور محتاج ہے؟ یا زید کے لیے یہ نفلی صدقہ اپنے اوپر خرچ کرنا جائز نہیں؛ بل کہ موکل کی ہدایت کے مطابق اسے اپنے علاوہ پر خرچ کرنا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ وکیل اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں شریعت، عرف اور موکل کے احکامات کا پابند ہوتا ہے،نیز اگر کسی شخص کو کسی نے بطور وکیل صدقہ کرنے کے لیے رقم دی ہو تو دینے والے کے حکم کے مطابق اس کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔

لہذا مذکورہ صورتوں میں سے جن صورتوں میں موکل نے وکیل (زید)کو رقم دیتے وقت وقت بلا تعیین   فقراءاجازت دے دی کہ آپ صدقہ کی رقم  جس طرح چاہیں تقسیم کرلیں ، جہاں مناسب سمجھیں خرچ کرلیں ، تو ان صورتوں میں وکیل (زید)کا صدقہ کی رقم کو اپنے استعمال لانا بھی جائز ہے، اور اپنی منشاء کے مطابق ضرورت مند یا کسی دینی ادارے میں دینا بھی جائز ہے۔

اور جن صورتوں میں موکل نے اس بات کی صراحت کرلی کہ میری صدقے کی رقم کو فلاں مدرسہ کے طلبہ میں یا فلاں مدرسہ میں خرچ کریں ، یا یہ رقم کسی ضرورت مند و محتاج کو دیں یا اس پر خرچ کریں تو ان صورتوں  میں وکیل (زید)کا صدقہ کی رقم کو موکل کی مقرر کی ہوئی  جگہوں  پر ہی خرچ کرنا لازم ہے ، ان صورتوں میں اس رقم کو وکیل (زید)خود بھی استعمال  نہیں کرسکتا اور موکل کی مقرر کردہ جگہوں کے علاوہ بھی خرچ کرنا جائز نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے : 

"لأن الوكيل يتصرف بولاية مستفادة من قبل الموكل فيملك قدر ما أفاده، ولا يثبت العموم إلا بلفظ يدل عليه، وهو قوله: اعمل فيه برأيك وغير ذلك مما يدل على العموم."

(ج:6، ص:28 ،ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے :

"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اهـ.إلا إذا قال ‌ضعها ‌حيث ‌شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية".

(ج:2،ص:227،ط:دارالکتاب الاسلامی )

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال ربها ضعها حيث شئت.(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع".

( کتاب الزکوٰۃ، ج:2،ص:269،ط: سعید)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان".

(ضمان الوکیل ماتحت یدہ من اموال،ج:45،ص:87،ط: وزارۃ الاوقاف،کویت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100574

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں