بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل نے خود طلاق نامہ بنوایا اور شوہر نے اس پر دستخط نہیں کیے تو طلاق واقع نہیں ہوئی


سوال

میں  حلفیہ  اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ  میں نے کوئی طلاق نہیں دی،  نہ اسٹام فروش سے اس بارے میں کہا کہ ایسا کرو، میں لاہور  میں تھا،  میرا گھر رحیم یار خان میں ہے،  کئی ماہ سے میری بیوی اپنے  ماں باپ کے گھر میں تھی،  میں نے ہر ممکن کوشش کی، لیکن میری ہر کوشش ناکام رہی،  پھر میں نے ایک وکیل سے فون پر مشورہ کیا  اور اس سے یہ کہا کہ آپ ایک عدالتی نوٹس بناؤ جس میں  انہیں(ساس اور سسر کو) طلب کیا جائے،  وکیل نے عدالتی نوٹس بنوانے کے بجائےخود  اسٹام فروش سے رابطہ کیا اور اس کو  کہہ کر  یہ طلاق نامہ بنوا لیا ، میری اسٹام فروش سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی،  پھر میں نے اس کے پاس اپنے دوست کو تحریر لینے کے لیے بھیجا اور میرے دوست نے تحریر لے کر میرے سسرال والوں کو دی،اسٹام فروش نے اس تحریر کے اندر  کیا لکھا،  مجھے واللہ اس بات کا علم نہیں، جب میری تحریر سسرال والوں کے پاس پہنچی تو وہ شور مچانے لگے کہ یہ تو اس نے طلاق دے دی،  جب مجھے معلوم ہوا تو میں  نے فون کیا اور کہا کہ میں نے تو نوٹس بھجو ایا ہے،  طلاق نہیں  دی،  اب وہ کہہ  رہے  ہیں کہ  اس کا فتوی  لے کر دو،  اس میں میرے یا کسی گواہ کے دستخط یا انگوٹھے کے نشان نہیں ہیں۔ ا س تحریر میں جو گواہ درج ہیں وہ  حلفًا  کہہ  رہے ہیں کہ ہمیں کسی تحریر کے بارے میں معلوم نہیں ہے اور نہ ہم نہ یہ موجود   تھا۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر   سائل کا بیان واقعتًا  درست  ہے  کہ  سائل نے  وکیل کو منسلکہ طلاق نامہ بنوانے کانہیں کہا تھا ، بلکہ اسے ساس اور سسر کو طلب کرنے پر مشتمل ایک عدالتی نوٹس بنوانے  کا کہا تھا،  لیکن وکیل نے طلاق نامہ بنوالیا اور سائل نے نہ طلاق نامہ پر دستخط کیے اور نہ ہی سائل کو اس طلاق نامہ میں لکھی ہوئی تحریر کا علم تھا، نیز  سائل نے  اس تحریر کو نہیں   پڑھا تھا اور  کسی  دوسرے شخص  نے بھی یہ تحریرسائل کو پڑھ کر نہیں سنائی تو ایسی صورت میں سائل کی بیوی پر اس طلاق نامہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور سائل کا نکاح اس کی  بیوی  کے ساتھ حسب سابق قائم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

«وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ»

 (‌‌كتاب الطلاق،مطلب في الطلاق بالكتابة،3/ 247،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں