بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کے ذریعے سامان منگوانے کے بعد اسی کو نفع کے ساتھ فروخت کرنا


سوال

ایک شخص  (زید)  دوسرے شہر  سے سامان خرید کر لاکر   بیچتا ہے، اس کا یہ کاروبار ہے، اب دوسرا شخص  (بکر)  اس سے کہتا ہے کہ آپ جب اپنا مال خریدنے جاؤ تو میرے لیے بھی اتنا مال خرید کر لے آنا،  اور اس کے لیے ایڈوانس میں  اس کو پیسے بھی دے دیتا ہے،  اس کے بعد ”زید“ اپنا اور ” بکر“کا مال خرید کر لاتا ہے، اور مال اپنے گودام میں رکھوادیتا ہے، اس کے بعد اس کو کہتا ہے کہ آپ کا مال آگیا ہے، آکر وصول کرلو، پھر اس کو کہتا ہے کہ آپ اس کو کہیں اور کیا بیچو گے، اگر چاہو تو اپنا مال مجھے ہی نفع کے ساتھ ادھار پر بیچ دو، میں  ساٹھ دن میں تمہیں پیسے ادا کردوں گا، کیا یہ صورت جائز ہے؟

 اس میں ایک بات یہ ہے کہ     زید کے مال خریدنے  سے پہلے  ہی دونوں کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ   بکر کا مال بھی  زید ہی خریدے گا، اور  زید اس کو پہلے سے بتابھی دیتا ہے کہ   میں آپ کا مال اتنا نفع رکھ کر ادھار میں  خرید لوں گا، لیکن جب مال آتا ہے  تو  اس کے بعد  زید ،  بکر کو کہتا ہے ہے آپ کا مال آگیا ہے،  میرے گودام میں موجود ہے، آپ اس کو وصول کرکے،  مارکیٹ میں بیچ سکتے ہو، اگر مجھے بیچو گے تو میں اتنی ہی قیمت میں آپ سے لوں گا جتنا میں نے پہلے بتایا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو   کسی سامان  کی خریداری کا وکیل  بنادے ، اور وکیل مطلوبہ سامان  خرید لے تو   وہ سامان جب تک موکل (وکیل بنانے والے شخص ) کے حوالہ  نہ کردے  تب تک اس کو خود اپنے لیے خریدنا جائز نہیں ہے،البتہ   مطلوبہ سامان  آنے کے بعد   ، سامان منگوانے والا خود  یا اپنے کسی اور وکیل کے ذریعے اس    پر  قبضہ کر لے تو پھر     وکیل بالشراء (جس  کو سامان خریدنے کا وکیل بنایا تھا )  کو وہ ہی سامان بیچنا جائز ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  ”بکر“  دوسرے  شہر سے     ”زید“  کے ہاتھ  مال منگواتا ہے،  اور اس کے لیے اس کو پیشگی رقم بھی دیتا ہے، تو  ”زید“   جب اپنے مال کے ساتھ ”بکر“ کا مال بھی خرید کر لائے گا تو اس کے پاس یہ مال امانت ہوگا، ”  زید“ کے گودام میں مال آجانے کے بعد   اگر ” بکر“  خود    جاکر یا کسی دوسرے شخص کو وکیل بناکر اس گودام میں  بھیج  دے اور اس مال  کو اپنے  قبضہ میں لے لے تو اس کے  بعد” بکر“ کے لیے وہی مال ”زید“  کو نفع کے ساتھ ادھار میں فروخت کرنا جائز  ہوگا، مال کو اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے بیچنا  جائز نہیں  ہوگا۔

باقی جو   زید  پہلے سے یہ بتادیتا ہے کہ  مال لانے کے بعد میں آپ کو مال اگر خریدوں گا تو اتنے نفع پر خرید لوں گا تو یہ  چوں کہ سودا نہیں ہے، بلکہ خریدنے کا وعدہ ہے، اس لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله : و من اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض ... أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لاتبيعن شيئًا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان."

(6/ 511، کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وملك) بالقبول (بلا قبض جديد لو الموهوب في يد الموهوب له) ولو بغصب أو أمانة؛ لأنه حينئذٍ عامل لنفسه، والأصل أن القبضين إذا تجانسا ناب أحدهما عن الآخر، وإذا تغايرا ناب الأعلى عن الأدنى لا عكسه.
(قوله: ولو بغصب) انظر الزيلعي (قوله: عن الآخر) كما إذا كان عنده وديعة فأعارها صاحبها له فإن كلاً منهما قبض أمانة، فناب أحدهما عن الآخر، (قوله: عن الأدنى) فناب قبض المغصوب والمبيع فاسداً عن قبض المبيع الصحيح، ولا ينوب قبض الأمانة عنه، منح (قوله: لا عكسه) فقبض الوديعة مع قبض الهبة يتجانسان؛ لأنهما قبض أمانة ومع قبض الشراء يتغايران؛ لأنه قبض ضمان، فلا ينوب الأول عنه، كما في المحيط، ومثله في شرح الطحاوي."

(5/ 694، كتاب الهبة، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں