اگر کوئی مزکی وکیل کو زکوةکی رقم دے دے ،تو وہ وکیل اس رقم سے خوراک کا سامان (دال چاول وغیرہ) خرید کر مستحقین کو دے سکتا ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں وکیل کے لیے موکل کی اجازت کے بغیر زکوۃ کی رقم سے خوراک کا سامان خرید کر مستحقین کو دینا جائز نہیں ،البتہ اگر موکل نے وکیل کو اس میں تصرف کرنے کی صراحتاً یا دلالۃً اجازت دی ہو تو وکیل کے لیے اس رقم سے خوراک کا سامان خرید کر مستحقین کو دینا جائز ہوگا۔
البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:
"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اهـ. إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية".
(کتاب الزکوۃ،ج:2،ص:369،ط:دارالکتب العلمیة)
احسن الفتاوی میں ہے:
"سوال :کیا وکیل زکوۃ کی رقم سے کوئی چیز مثلاًکپڑا،جوتہ،غلہ اور پھل خرید کر دے سکتا ہے؟بینوا توجروا،
جواب:یہ بھی موکل کے اذن پر موقوف ہے،اگر اس کی طرف سے صراحۃً یا دلالۃً اس کا اذن موجودہو تو جائز ہےورنہ نہیں۔"
(احسن الفتاوی،ج:4،ص:301ِ،ط:ایچ ایم سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144509101791
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن