اگر کوئی بندہ کسی کو کہتا ہے یہ زکوۃ، صدقہ فطر اور صدقہ کسی کو دے دینا، مگر جِس کو وہ دیتا ہے وہ خود مستحق ہو وہ استعمال کرسکتا ہے؟
جس آدمی کو زکوۃ، صدقہ فطر کی ادائیگی کا وکیل بنایا جائے اس کے لیے صدقہ یا زکاۃ کا مال اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اس کے ہاتھ میں یہ مال امانت رہے گا جسے موکل کی ہدایت کے مطابق صرف کرنا لازم ہوگا، تاہم اگر موکل نے وکیل کو مکمل اختیار دے دیا ہو اور یوں کہہ دیا ہو کہ "جو چاہے کرو جسے چاہے دو" اس صورت میں اگر وکیل زکاۃ کا مستحق ہو تو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (2 / 227):
"وَلِلْوَكِيلِ بِدَفْعِ الزَّكَاةِ أَنْ يَدْفَعَهَا إلَى وَلَدِ نَفْسِهِ كَبِيرًا كان أو صَغِيرًا وَإِلَى امْرَأَتِهِ إذَا كَانُوا مَحَاوِيجَ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُمْسِكَ لِنَفْسِهِ شيأ اه إلَّا إذَا قال ضَعْهَا حَيْثُ شِئْتَ فَلَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا لِنَفْسِهِ كَذَا في الْوَلْوَالِجيَّةِِ".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110200564
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن