بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم کسی کے نام پر لینے کے بعد خود استعمال کرنے کا حکم


سوال

میرا ایک دوست جو کسی وجہ سے جیل میں تھا، میں اس کے بچوں کے لیے زکوٰۃ وغیرہ کے پیسے لوگوں سے اکٹھا کر رہا تھا،  اور اس کی بچوں کی  خدمت کرتا اس کے کچھ پیسے جو میں نے بطور زکوٰۃ اس کے  نام پر لوگوں سے لیےتھے مجھ سے اپنے کام  میں لگ گئے حالانکہ میں خود بھی اس وقت زکوۃ کا مستحق تھا، تو کیا یہ رقم مجھ پر اس بندے کا حق بنتا ہے جس کے نام پر لیے تھے ؟برائے کرم راہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب سائل نے زکوۃ کی رقم اپنے دوست کے بچوں کے نام پر لینے کےبعد اس میں سے خود بھی استعمال کیا اگرچہ خود بھی زکوۃ کا مستحق تھا، تب بھی  اتنی رقم  دوست کے بچوں کو واپس کرے گا، اور دوست کے بچوں کو واپس کرتے وقت مالک کو بتانا ضروری ہوگاکہ میں نے اتنی رقم خود استعمال کی تھی اب میں وہ ادا کررہاہوں۔ 

البحر الرائق میں ہے:

"ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئااھ.  إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية."

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 369، ط: دار الكتب العلمية)

الدر مع الرد میں ہے:

"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

 وفي الرد: (قوله: لولده الفقير) وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين إذ لو خالف ففيه قولان... وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره."

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 269، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں