بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا زکات کی رقم اپنے استعمال میں لانے کا حکم


سوال

کسی آدمی نے مستحق زکات شخص کو یہ کہہ کر اپنی زکات کی رقم دی کہ  آپ میری طرف سے کسی مستحق زکوٰۃ کو یہ رقم دے دیں، اب اگر وہ آدمی خود یہ زکات کی رقم اگر استعمال کرلے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ اس شخص کے لیے یہ رقم اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے،یہ شخص زکوۃ دینے والے کا وکیل ہے، اس کے پاس یہ رقم امانت ہے، لہٰذا کسی دوسرے زکات کے مستحق کو یہ رقم مالک بنا کر دینا ضروری ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"‌وللوكيل ‌بدفع ‌الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه."

(كتاب الزكاة، شروط أداء الزكاة، ج:٢، ص:٢٢٧، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت."

(كتاب الزكاة، ج:٢، ص:٢٦٩، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں