راشد نے نعیم کو کہا تمہاری شادی کروا دوں تمہاری طرف سے وکیل بن کر ؟نعیم کا دھیان کہیں اور تھا ،وہ سمجھا کہ نعیم رشتہ تلاش کرنے کی بات کر رہا ہے۔ اس نے ہاں کہا۔ راشد نے نعیم کا نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں رابعہ سے قبول کر لیا۔ نعیم کہتا ہے کہ اس نے کوئی وکالت کی اجازت نہیں دی ،اسے بات سمجھ ہی نہیں آئی کہ وکیل کیا ہوتا ہے اس نے راشد کو رشتہ تلاش کرنے کی اجازت دی تھی نکاح قبول کرنے کی اجازت نہیں دی ؟
صورتِ مسئولہ میں نعيم (موكل) اس بات پر قسم اٹھالے کہ اس نے شادی کرانے کا وکیل نہیں بنایا تھا بلکہ صرف رشتہ کرانے کی وکالت دی تھی تو اس کی بات معتبر ہوگی اور راشد کا کیا ہوا نکاح نعیم کی اجازت پر موقوف ہوگا۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:
"إذا اختلف الموكل والوكيل في صفة الوكالة، كأن يقول الموكل: وكلتك في بيع هذا البعير، ويقول الوكيل: بل وكلتني في بيع هذه الناقة. أو قال الموكل: وكلتك في البيع بألفين، وقال الوكيل: بل بألف، أو قال الموكل: وكلتك في بيعه نقدا، وقال الوكيل: بل نسيئة. فقد اختلف الفقهاء في تحديد من يقبل قوله في هذه الصور التي تمثل الاختلاف بين الموكل والوكيل في صفة الوكالة. فذهب الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة في أحد الوجهين - اختاره القاضي - إلى أن القول قول الموكل"
(أحكام الوكالة، ص:97، ج:45، ط:دار السلاسل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100232
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن