بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کے لیے نفلی صدقہ استعمال کرنے میں مؤکل کے قول کا اعتبارہےیا نہیں ؟


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:

(١)ایک شخص نے زید کو نفلی صدقہ یہ کہتے ہوئے دیا کہ "آپ یہ صدقہ (رقم وغیرہ) کسی بھی محتاج اور ضرورت مند کو دیں"یا "آپ یہ صدقہ کسی بھی محتاج اور ضرورت مند پر خرچ کریں" یا" کسی بھی مستحق کو دیں"۔

(٢)یا اس موکل (شخص مذکور) نے زید کو یہ کہتے ہوئے نفلی صدقہ دیا کہ "جہاں آپ چاہیں اسے خرچ کردیں" یا "جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے خرچ کریں" یا" جس شخص کو آپ مناسب سمجھیں  دیں" ۔

(٣)یا شخص مذکور نے یہ کہتے ہوئے زید کو نفلی صدقہ دیا کہ" فلاں مدرسے کے طلبہ یا فلاں مدرسے میں اسے خرچ کریں" تو کیا ان تمام صورتوں میں وکیل یعنی زید یہ نفلی صدقہ بغیر کسی کو دیے اپنی ذات پر خرچ کرسکتا ہے جب کہ وہ بھی خود ضرورت مند اور محتاج ہے؟ یا زید کے لیے یہ نفلی صدقہ اپنے اوپر خرچ کرنا جائز نہیں؛ بل کہ موکل کی ہدایت کے مطابق اسے اپنے علاوہ پر خرچ کرنا ضروری ہے؟ 

جواب

وکیل اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں شریعت، عرف اور موکل کے احکامات کا پابند ہوتا ہے،  اگر  موکل نے وکیل کو کسی کوصدقہ دینے کے لیے رقم دی ہو تو وکیل خود اس کو اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتا،  البتہ اگر موکل نے وکیل کو اس کی اجازت دی ہو کہ اسے آپ خود بھی استعمال کرسکتے ہو  یا اسے مکمل اختیار دیاہو کہ ” آپ اسے جہاں چاہیں خرچ کردیں“  تو اس صورت میں موکل کی منشا  کے مطابق وکیل اسے خود بھی استعمال کرسکتا ہے۔

1:لہذا  پہلی عبارت   میں  مذکورہ تینوں  صورتوں  میں    وکیل(زید)  کے لیے صدقہ خود استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

2:اس صورت میں زید خود بھی استعمال کر سکتاہے ،بشرطیکہ زید واقعۃ خود بھی محتاج اور غریب ہو۔اور دوسروں کو بھی دے سکتاہے۔

3:اس صورت میں فلاں مدرسے یا اس کے طلبہ کو ہی د ینا لازم ہے ،خود استعمال نہیں کر سکتا۔

 البحر الرائق  میں ہے :

"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك لنفسه شيئا اهـ.إلا إذا قال ضعها حيث شئت فله أن يمسكها لنفسه كذا في الولوالجية".

(کتاب الزکات،شروط اداء الزکات،ج:2،ص:227،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت."

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع". ( کتاب الزکوٰۃ،2/ 269،، ط: سعید)

الموسوعہ الفقہیہ   میں ہے:

"الوكيل أثناء قيامه بتنفيذ الوكالة مقيد بما يقضي به الشرع من عدم الإضرار بالموكل؛ لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ضرر ولا ضرار، ومقيد بما يأمره به موكله، كما أنه مقيد بما يقضي به العرف إذا كانت الوكالة مطلقة عن القيود، فإذا خالف كان متعديًا ووجب الضمان".

(الوکالۃ ، ضمان الوكيل ما تحت يده من أموال،45/ 87،  ، ط: طبع الوزارة)

"تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي" میں ہے :

"وفي الجامع فرق بين الوضع وبين الدفع والصرف والفرق أن الدفع والصرف للتمليك كالإعطاء والإيتاء والواحد لايكون مملكًا ومتملكًا في غير الأب والجد والوصي عنده". 

 (کتاب الزکاۃ،،1 / 305 ،بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101591

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں