بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا مؤکل کی زکات اپنی بیوی کو دینے کا حکم


سوال

شوہر اگر کسی شخص کی زکوٰۃ کا وکیل ہو تو کیا وہ اس شخص کی زکوٰۃ اپنی مستحق زکوٰۃ بیوی کو دے سکتا ہے؟

جواب

زکات کی ادائیگی کا وکیل اپنے مؤکل کی زکات اپنی مستحق زکات بیوی کو دے سکتا ہے بشرطیکہ مؤکل نے کسی خاص فقیر یا خاص مصرف میں زکات صرف کرنے کا حکم نہ دیا ہو،بلکہ اسے وکیل کی صواب دید  پر  چھوڑا ہو کہ وہ جسے چاہے دے، لیکن اگر موکل نے زکات کی رقم کسی خاص فقیر کو دینے یا کسی خاص مصرف میں صرف کرنے کا حکم دیا ہو  تو ایسی صورت میں وکیل پر اُسی فقیر پر یا اسی مصرف میں اپنے مؤکل کی زکات خرچ کرنا لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 269):

’’ وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال ربها : ضعها حيث شئت.

(قوله: لولده الفقير) وإذا كان ولدًا صغيرًا فلا بدّ من كونه فقيرًا أيضًا؛ لأنّ الصغير يعد غنيًّا بغنى أبيه أفاده ط عن أبي السعود وهذا حيث لم يأمره بالدفع إلى معين؛ إذ لو خالف ففيه قولان حكاهما في القنية. وذكر في البحر أن القواعد تشهد للقول بأنه لايضمن لقولهم: لو نذر التصدق على فلان له أن يتصدق على غيره. اهـ. أقول: وفيه نظر لأن تعيين الزمان والمكان والدرهم والفقير غير معتبر في النذر لأن الداخل تحته ما هو قربة، وهو أصل التصدق دون التعيين فيبطل، وتلزم القربة كما صرحوا به، وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلايملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل (قوله: وزوجته) أي الفقيرة.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں