بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1446ھ 20 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا مؤکل کے علم میں لائے بغیر نفع حاصل کرنے کا حکم


سوال

زید کمپنی ”الف“ میں ڈیٹا انٹری کا کام کرتا ہے۔کمپنی ”الف“ اسے سو ریال معاوضہ دیتی ہے۔ وہ کئی سالوں سے سو ریال پر کام کررہا ہے۔ایک دن کمپنی ”الف“ کے مالک کے شراکت دار نے اسے بلایا،  جس کی کمپنی ”ب“ بھی ہے اور ”الف“ میں بھی کچھ شراکت داری ہے، یا شاید نہیں ہے، حقیقت اسے معلوم نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ” الف“ اور ”ب“ کے مالکان دونوں باپ بیٹے ہیں۔ کمپنی ”ب“ نے زید سے کہا کہ ہمیں اپنی کمپنی کا مال منگوانے کے لئے گاڑیاں کرایہ پر چاہیے،تم ہمارے لیےگاڑیاں لاؤ، اب ان گاڑیوں کے لانے کا کوئی معاوضہ دونوں میں الگ سے طے نہیں ہوا، اور نہ ہی کوئی وقت یا جگہ طے ہوئی۔بس کمپنی ”ب“ نے کہا کہ مارکیٹ دیکھو اور ہمارے لئے گاڑیاں بک کرکے ہمارا سامان لوڈ کروا کر لاؤ۔زید ایک سال تک مال لوڈ کرواتا رہا، پھر اسے خیال آیا کہ مجھے تو اس کا م کا کچھ مل ہی نہیں رہا،  میں یہ کام اپنے فائدے کے بنا کیوں کروں؟ تو اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک کمپنی بنائی اور وہ دونوں گاڑیاں کمپنی ”ب“ کو دیتے ہیں اور اپنا کمیشن ایسے لیتے ہیں کہ مثلا کمپنی ”ب“ نے کہا کہ گاڑی لوڈ کرواؤ۔ ہم ڈرائیور کو سو ریال دیں گے۔زید اور اس کے دوست نے ڈرائیور کو کہا: بھائی! اسی ریال دیں گے۔ مال فلاں جگہ پہنچا دو۔اب ڈرائیور اسی ریال  کمپنی سے لیتا ہے،  اورباقی  بیس ریال زید کا دوست وصول کرتا ہے۔پھر وہ بیس ریال دونوں آپس میں 1/3 بانٹ لیتے ہیں۔واضح رہے کہ زید کی کمپنی ”الف“ کا کام باقاعدگی سے چل رہا ہے اور انہیں  کام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔کمپنی  ”ب“ کو بھی گاڑیاں اپنے من چاہے ریٹس پر مل رہی ہیں۔

کیا یہ طریقہ زید کے لئے جائز ہے؟ کیا زید کی آمدنی حلال ہے؟ اگر نہیں تو کیا طریقہ ہے؟ کیونکہ کمپنی والے اسے کوئی معاوضہ الگ سے نہیں دے رہےہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں  زید کمپنی ”ب“ کا وکیل ہے، اور وکیل امین (امانت دار) ہوتا ہے،  جس کے ذمے تمام معاملات کی آگاہی اپنے مؤکل  کو دینا ہوتی ہے، لہذا زید کا  خفیہ طور پر اپنے دوست کے ساتھ مل کر کمپنی قائم کرکے، کمپنی ”ب“ کے مالک کے علم میں لائے بغیر اس طرح نفع حاصل کرناجائز نہیں ہے۔

تاہم اگر  زید کمپنی ”ب“کے مالک کے علم میں لاکر یہ عمل کرلے اور کمپنی کا مالک   اسے اجازت دے دے، تو یہ صورت جائز  ہوسکتی ہے، اور اس سے پہلے کمپنی ”ب“  کے مالک کی اجازت کے بغیر  زید نے جتنا کمیشن وصول کرلیا ہےاتنی رقم کمپنی ”ب“كے مالك   کو واپس کرنا ضروری ہے ۔

درر الحکام میں ہے :

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ۔۔۔۔ لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة."

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، ج:3، ص:573، ط:دارالجیل)

الموسوعة الفقهية الكويتيةمیں ہے:

"وإذا كان في عهدة المكلف مال حرام، فإن علم أصحابه وجب رده إليهم، وإن لم يعلم أصحابه يتصدق به،أما الآخذ أي: المتصدق عليه فإن عرف أن المال المتصدق به من النجس أو الحرام كالغصب، أو السرقة، أو الغدر، فيستحب له أن لا يأخذه ولا يأكل منه. ومع ذلك فقد أجاز أكثر الفقهاء أخذه له مع الكراهة...يقول ابن عابدين: إذا كان عليه ديون ومظالم لا يعرف أربابها، وأيس من معرفتهم، فعليه التصدق بقدرها من ماله، وإن استغرقت جميع ماله."

(‌‌التصدق بالمال الحلال والحرام والمال المشتبه فيه، ج:26، ص:335، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

وفیھا ایضا:

"تتعلق بالوكيل أحكام، منها:

الأول: أن يقوم الوكيل ‌بتنفيذ ‌الوكالة في الحدود التي أذن له الموكل بها أو التي قيده الشرع أو العرف بالتزامها.‌‌الثاني: موافاة الموكل بالمعلومات الضرورية وتقديم حساب عن الوكالة. ‌‌الثالث: رد ما للموكل في يد الوكيل"

(وكالة، أحكام الوكالة:الحكم الأول، تنفيذ الوكالة، ج:45، ص:37، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612100028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں