بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کے ذریعہ کوئی چیز خرید کر اسی وکیل کو ادھار فروخت کرنا


سوال

1۔  میرے پاس میرا ایک دوست آیا جس کی پرچون کی دکان ہے اس کو اپنی دکان کے لیے سامان چاہیے تھا، اور اس کے پاس رقم نہیں تھی۔

میں نے اس کو چار لاکھ روپےدے  دیے اور کہا کہ سامان لے کر آ جاؤ،  وہ  مارکیٹ سے سامان  خرید کر میرے پاس لے کر آیا ، اور اس کے بعد میں نے اس سے یہ معاہدہ کیا کہ اب میں یہ تمہیں  ادھار پر فروخت کرتا ہوں۔

ہر مہینے کے آخر میں تم مجھے تیس ہزار روپے دو گے اور چار لاکھ 80 ہزار میں ہمارا سودا ہوا ۔

قسط  کی تاخیر پر کسی قسم کا کوئی اضافی جرمانہ نہیں لگایا گیا ۔

کیا اس طرح سے ہمارا معاملہ کرنا درست ہے یا درست نہیں ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا موکل اپنے ہی وکیل کو   اس کے ذریعہ خریدی ہوئی چیز  فروخت کر سکتا ہے؟

وضاحت:

  اس معاملے کے ہونے سے پہلے ہم دونوں افراد کے درمیان زبانی کلامی بات  ہوئی تھی کہ تم چار لاکھ روپے میں مال  خرید کر آ جاؤ پھر میں تمہیں یہ پانچ لاکھ میں قسطوں میں فروخت کر دوں گا،  کیونکہ  میرا دوست یک مشت پیسہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا ہے، لہذا  اس نے قسطوں پر خریدنے میں حامی بھری تھی، جس کے بعد  میں نے چار لاکھ روپے اس کے حوالے کئے اور اسے کہا کہ میں تمہیں اپنا وکیل بناتا  ہوں کہ تم مطلوبہ سامان  میرے لیے خرید کر میرے پاس آجاؤ۔

پھر جب وہ سامان لے کر میرے پاس آیا تو میں نے اس پر قبضہ کیا اور چار لاکھ اسی ہزار میں اسے قسطوں پر فروخت کردیا۔

جواب

1. صورت مسئولہ میں سائل نے مذکورہ شخص کو چار لاکھ روپے فراہم کرنے سے قبل جو زبانی بات کی تھی، ایسا کرنا غلط تھا، تاہم  مذکورہ شخص کو اپنا وکیل بنا کر مال منگوانا، اور مال پر قبضہ کرنے کے بعد   مذکورہ شخص کو مذکورہ مال  چار لاکھ اسی ہزار کے عوض قسطوں پر  (اس صراحت کے ساتھ فروخت کرنا کہ قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کوئی اضافی رقم وصول نہیں کرے گا،  جائز ہوگا، اور آمدنی بھی حلال ہوگی۔

فتح القدیر لابن الهماممیں ہے:

"ومن اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض."

(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، فصل اشترى شيئا مما ينقل ويحول، ٦ / ٥١٠ - ٥١١، ط: دار الفكر)

تبين الحقائق شرح كنز الدقائقمیں ہے:

 "لايجوز بيع المنقول قبل القبض؛ لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."

( کتاب البیوع، باب التولیة، فصل بيع العقار قبل قبضه، ٤ / ٨٠ ، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة) 

شرح المجلة لخالد الأتاسي میں ہے:

"للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقاراً ... وإن كان منقولاّ فلا."

(کتاب البیوع، الباب الرابع فی بیان المسائل المعلقة بالتصرف، الفصل الأول، ٢ / ١٧٣ - ١٧٣، المادۃ: ١٥٤، ط:  مطبعة حمص) 

2. صورت مسئولہ  میں مؤکل اور اس کے وکیل کے درمیان فروختگی کا اگر  پیشگی کوئی معاہدہ نہ ہو  کہ  مطلوبہ چیز وہ قسطوں پر فروخت کر دیا، تو مطلوبہ چیز مؤکل اپنے لیے خرید کرا کر لانے کے بعد قبضہ کرکے اپنے ہی وکیل کو نقد یا ادھار پر فروخت کر سکتا ہے۔ البتہ پیشگی معاہدہ  کرکے فروخت کر دینے کی صورت میں اپنے وکیل کو نقد یا ادھا فروخت کرنا جائز نہ ہوگا۔

اسی طرح  منقولہ  چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

کیوں کہ فروختگی کا پیشگی معاہدہ     ایک عقد  میں دوسرا عقد کرنا ہے، جوکہ از روئے حدیث ممنوع ہے۔

پس جب وکیل مطلوبہ چیز مؤکل کے لیے خرید کر مؤکل کے سپرد کردے، اس کے بعد مؤکل قسطوں پر وہ چیز  اپنے وکیل کو فروخت کر سکتا ہے،  تاہم  فروخت کرتے وقت  فروخت کردہ چیز ، اس کی  قیمت ، اور ادھاری کی مدت  طے کرنا ضروری ہوگا، اسی طرح سے قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کسی قسم کی اضافہ رقم کی وصولی کی شرط لگانا کی بھی اجازت نہ ہوگی۔

مسند الإمام أحمد بن حنبلمیں ہے:

"٣٧٨٣ - حدثنا حسن، وأبو النضر، وأسود بن عامر، قالوا: حدثنا شريك، عن سماك، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود،، عن أبيه، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة. "

( مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه، ٦ / ٣٢٤، ط: مؤسسة الرسالة )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408100392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں