بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل کا زکاۃ کی رقم بغیر اجازت کے استعمال کرنے کا حکم


سوال

زکوة کی رقم ادائیگی کے لیے ایک صاحب کو وکیل بنایا کہ اپنی ذمہ داری پر صحیح مصرف پر خرچ کردیں، اب وکیل صاحب نے وہ زکوة کی رقم ذاتی ضرورت پر خرچ کردی ادھار کی نیت کے ساتھ، پھر بعد میں اتنی رقم زکوة کی ادائیگی میں ادا کر دی بطور وکیل صحیح مصرف میں ،ایسی صورت میں زکوة ادا ہوگئی یا نہیں ؟

جواب

 جس شخص کو کسی نے اپنی زکوۃ ادا کرنے کے لیے وکیل بنایا ، اس کا زکوۃ کی رقم کو اس نیت سے اپنے استعمال میں لانا کہ بعد میں ادائیگی کر دوں گا،یہ جائزنہیں اور اگر کسی نے ایسا کیا ، تو  اب اپنے طور پر زکوۃ کے پیسے ادا کرنے سے زکاۃ ادانہیں ہوگی ، بلکہ اس پر لازم ہے کہ جس نے اس کو زکوۃ دی تھی  ، اس کویہ صورت حال بتاکردوبارہ زکاۃ اداکرنے کی اجازت لے  ،اب اگر وہ کہے کہ تم میری طرف سے یہ دوبارہ ادا کر  دو ، تو   کر سکتا ہے،زکوۃ ادا ہوجائے گی،لیکن اگر  مؤکل کو   نہ بتائے اور اپنی رقم زکوۃ کے طور پر مؤکل کی طرف سے ادا کردے تو مؤکل کی زکوۃ ادا نہ ہوگی ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت، ولو تصدق بدراهم نفسه أجزأ إن كان على نية الرجوع وكانت دراهم الموكل قائمة.

(قوله: ضمن وكان متبرعا) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه. قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اهـ أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، لما في البحر: لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اهـ لكن قد يقال: تجزي عن الآمر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع. قال في البحر: ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف. وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع اهـ تأمل، ثم قال في التتارخانية أو وجدت دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن من أرباب الحنطة بخلط ثمن الغلات؛ وكذلك المتولي إذا كان في يده أوقيات مختلفة وخلط غلاتها ضمن وكذلك السمسار إذا خلط الأثمان أو البياع إذا خلط الأمتعة يضمن. اهـ. قال في التجنيس: ولا عرف في حق السماسرة والبياعين بخلط ثمن الغلات والأمتعة اهـ ويتصل بهذا العالم إذا سأل للفقراء شيئا وخلط يضمن. قلت: ومقتضاه أنه لو وجد العرف فلا ضمان لوجود الإذن حينئذ دلالة. والظاهر أنه لا بد من علم المالك بهذا العرف ليكون إذنا منه دلالة   ..... (قوله: ولو تصدق إلخ) أي الوكيل بدفع الزكاة إذا أمسك دراهم الموكل ودفع من ماله ليرجع ببدلها في دراهم الموكل صح. بخلاف ما إذا أنفقها أولا على نفسه مثلا ثم دفع من ماله فهو متبرع، وعلى هذا التفصيل الوكيل بالإنفاق أو بقضاء الدين أو الشراء كما سيأتي إن شاء الله - تعالى - في الوكالة".

( الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الزكاة، ج:2، ص:269، ط: سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"زکوۃ کا روپیہ اپنے کام میں خرچ کرنا اور تنخواہ سےاس کا عوض دینا"

سوال :- (۱) کسی مدرسہ میں مدرسہ کی طرف سے زکوۃ وصدقات کا مال وصول کرنے والا در صورتیکہ محصل محتاج ہو، اور مصرف زکوۃ ہو، اگر اپنی اجرت سے زائد کچھ روپیہ خرچ کرڈالے پھر اس کو اپنی آمدنی سے بعد میں پورا کردے کیسا ہے، جائز ہے یا نا جائز؟

(۲) زکوۃ کا مال مدرسین کی تنخواہوں میں خرچ کرنا بغیر تملیک کے جس مدرسہ میں مطبخ ہو کیا حکم ہے؟

الجواب حامداً ومصلیاً:

(۱) مدرسہ کی طرف سے جو شخص محصل مقرر کیا گیاہے، وہ امین ہے، جتنا روپیہ زکوۃ وصدقات کا وصول کرتا ہے، وہ امانت ہے، اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں،۱؂ ایسی صورت میں زکوۃ ادانہیں ہوگی، اور لازم ہوگا کہ اس کا ضمان معطی کو دے اور کہدے کہ آپ کا دیا ہوا روپیہ میں نے خرچ کرلیا، زکوۃ ادا نہیں ہوئی، اس لئے یہ روپیہ بطور ضمان دے رہا ہو، یا اگر معطی کی طرف سے صرف کرنے کی اجازت ہو تو بطور قرض اس کو صرف کر سکتا ہے، پھر قرض مدرسہ کو واپس کرکے مصارف زکوۃ پر صرف کردیا جائے۔

(۲) تنخواہ میں زکوۃ کا روپیہ لینا دینا جائز نہیں، اس سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ "

فقط واللہ اعلم 

    حررہٗ العبد محمود غفرلہٗ دارالعلوم دیوبند ۹؍۱۰؍۹۰ھ؁

وکیل کا زکوۃ کو اپنے مصرف میں لانا اور پھر ادا کرنا

سوال [۴۵۹۵) : زید کو خالد نے مبلغ سو روپے دیئے کہ یہ روپے فلاں مدرسہ کو بمد زکوۃ دید بینا، زید نے کہا کہ منی آرڈر کر دوں گا، خالد نے کہا کہ ہاں منی آرڈر کر دینا۔ اب زید اپنی کسی مجبوری سے یا بدا طواری سے کچھ رقم یا پورے روپے کو خود خرچ کرلے اور زید کو کہدے کہ میں نے وہ رویے تمہارے کہنے کے مطابق مدرسہ کو  منی آرڈر کر دیئے۔ اب ایک عرصہ کے بعد زید کو حق تعالی نے ہدایت دی اور پچھلے کئے پر نادم ہے اور چاہتا ہے کہ وہ روپے جو خالد نے کسی مدرسہ کے واسطے دیئے تھے وہ ادا کر دے اور آہستہ آہستہ ادا کر دے، چونکہ بیک دم ادا  کرنے کی سکت نہیں ہے تو کیا اب وہ رو پید اس مدرسہ کو ادا کر سکتا ہے؟ بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ اگر زکوۃ کا روپیہ کسی کو دیا اور اس نے وہ خرچ کر دیا تو وہ جواب رو پیہ دے  دیگا، اس سے زکوۃ ادا نہ ہوگی اور زکوۃ کا روپیہ اگر خرچ نہ کیا اور دوسرا رو پیہ اپنے پاس سے دید یا تو زکوۃ ادا ہو جائے گی  تو اب اس میں کیا کیا جائے ؟ اگر اس روپیہ کو ظاہر کرے تو زید کی عزت و توقیر ختم ہو جانے کاقومی احتمال ہے ، اس حق کو کس طرح ادا کرے؟

الجواب حامداً و مصلياً:

جب حق تعالی سے ڈر کر توبہ کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کی نیت ہے تو بات صاف صاف بتادے اور روپیہ دینے والے سے اجازت لے لے کہ میں اب وہ روپیہ آپ کی طرف سے ادا کرتا ہوں، بغیر جدید اجازت کے زکوۃ ادا نہیں ہوگی ، اس لئے آپ گذشتہ کوتاہی کو معاف کر دیں اور اب اجازت دیدیں ۔ انشاء اللہ تعالی ، اس سے تو قیر ختم نہیں ہوگی بلکہ عند الله وعند الناس شخص مستحسن ہوگا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔

حرره العبد محمد غفر له، دارالعلوم دیو بند ،۵۹۲/۶/۱۵ الجواب صحیح: بنده نظام الدین عفی عنہ ، دار العلوم و یو بند ۹۲/۶/۱۶ھ۔

(فتاوی محمودیہ، کتاب الزکوٰۃ،باب اداء الزکوۃ،  ج:9، ص:4 89۔491،ط:ادارۃ الفاروق)

 امداد الاحکام میں ہے:

"سوال: (۲) ایک شخص کو وکیل بنایا کہ وہ رقم زکوٰۃ اپنی ماں کو لے جا کر دیدے رقم میں خیانت کرنا      ،اس نے درمیان میں خیانت کی ،کہ کچھ رقم خود صرف  کر ڈالی ،اور کچھ اپنی ماں کودیدی وہ شخص خود بھی مصرف زکوٰۃ ہے ،مگر اس کووکیل بنایا گیا تھا اس صورت میں زکوٰۃ اداہوجائے گی یا بقدر خیا نت پھر ادا کرنا پڑے گی ؟

 الجواب :اگر وکیل خود بھی فقیر ہے جب بھی زکوٰۃ ادانہ ہوگی ،البتہ جس قدر اس نے اپنی ماں کو دیدیا ہے اس قدر زکوٰۃ اداہوگئی ،باقی کا ضمان وکیل سے لے سکتے ہیں ۔

قال فی ا لدر : ولوخلط زکوٰ ۃ موکلیه ضمن وللوکیل ان یدفع لو لدہ الفقیر وزوجته (الفقیرۃ ) لالنفسه الّا اذا قال ربھا ضعھا حیث شئت ۱ھ قال فی الشامیة :وھذا  حیث لم یاٗمر ہ با لدفع  ،اذلوخالف ففیه قولان۱ھ (ج:۲ص: ۱۷)  ۲   ۲۲؍ربیع الثانی ۴۰؁ھ۔ 

(امداد الاحکام، کتاب  الزکاۃ، ج:2، ص:1، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

خیر الفتاوی میں ہے:

" وکیل مستحق نے زکوۃ کی رقم خود سرف کر لی تو زکوۃ ادا ہوئی یا نہیں؟

زید نے ایک عربی مدرسے کے طالب علم بکر کو 40 روپے زکوۃ کے دیے کہ اس کو اپنے مدرسہ میں داخل کر دو طالب علم نے اس خیال سے کہ میں بھی غریب اور مصرف زکوۃ ہو،  اپنے اوپر صرف کر لیے بکر کا یہ فعل بہشتی زیور کی تحریر کے مطابق صحیح معلوم نہیں ہوتا تو کیا زکوۃ ادا ہو گئی یا نہیں؟ اگر بکر مالک زید سے ایجاد لے لے تو یہ کافی ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر اجازت کافی نہیں تو بکر اپنے پاس سے دے یا نہیں ؟

المستفتی:مولانا عبدالمجید مدرس دارالعلوم عیدگاہ کبیر والا

الجواب: وفی الدر المختار ج:2، ص:13،  وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال ربها : ضعها حيث شئت.

روایت بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ سورت مسئولہ میں زکوۃ ادا نہیں ہوئی اور اب جب کہ وہ رقم خرچ ہو چکی ہے تو مالک اجازت بھی دے دے تب بھی زکوۃ ادا نہ ہوگی ، اور اگر بکر اپنے پاس سے رقم مدرسہ میں دے دے اور زید کو اس کی اطلاع نہ کرے تو بھی زکوۃ ادا نہ ہوگی البتہ اگر زید کو پوری تفصیل بتلا کر دوبارہ زید سے اجازت حاصل کر کے رقم جمع کرا دے تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔فقط واللہ اعلم:

بندہ محمد اسحاق غفر اللہ 

الجواب صحیح خیر محمدعفا اللہ عنہ

(خیر الفتاوی، کتاب الزکوٰۃ،  ج:3، ص:399، ط:مکتبہ امدادیہ)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144311100022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں