بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالشراء کا مؤکل سے زیادہ قیمت وصول کرنا


سوال

ہمارے گھر کے پاس پرچون کی دکان ہے،اس سے ہم سامان وغیرہ منگواتے ہیں تو ہمارےلیے خصوصی رعایت کے ساتھ سامان دیتاہے،اب پوچھنا یہ ہےکہ:

1: اگر ہم کسی اور کے لیے اس دکان  سے رعایت کے ساتھ سامان منگوائیں اور دکان  والے سے کچھ تذکرہ نہ کریں تو ایسا کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

2:اگر کوئی مجھ سے سامان منگوائے اور میں بازار کی قیمت سے کم قیمت پر خرید کر لاؤں اور ان سے بازاری قیمت  وصول کروں  تواس طرح کرنا جائز ہے یانہیں؟اور اب تک  جو وصول کرلیا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ دکان دار  جب   سائل سے تعلق کی بنیاد پر سائل  کے ساتھ  خصوصی رعایت کرتاہے تو سائل  کے لیے مذکورہ دکان سے  رعایت پر سامان لے کر کسی اور کو دینا جائز  نہیں ہے۔

  اگر کوئی شخص  سائل سے کوئی چیز منگواتا ہے تو اس صورت میں سائل کی حیثیت وکیل بالشراء(خریداری کے وکیل) کی ہوگی اور وکیل  امین کے حکم میں ہوتا ہے ،لہذا اس صورت میں کم قیمت پر کوئی چیز خرید کر مؤکل سے زیادہ قیمت لینا جائز نہیں ہوگا،ہاں اگر پہلے سے طے کرے کہ میں سامان منگوانے کی اتنی اجرت لوں گا اور دینے والا اس پر راضی ہو تو یہ اجرت لے سکتاہے اور  جو رقم اس سے پہلے وصول کرچکا ہے تو اس کا واپس کرنایا متعلقہ شخص کو بتا کر اس کی اجازت لینا لازم ہے۔

شرح المجلۃ میں ہے: 

"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(كتاب الوكالة،الباب الثالث في بيان احكام الوكالة ، المادة 1463، ج:3، ص:561، ط:دارالجيل)

وفيه ايضاّ:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان احكام الوكالة،المادة:1467،ج:3،ص:573،ط:دارالجیل)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وليس للمودع حق التصرف والاسترباح في الوديعة."

(كتاب الوديعة ج:11، ص:122، ط:دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں