بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالشراء کا مقررہ رقم سے زائد وصول کرنا


سوال

ایک مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرما دیں: ہم لوگ بہت سی کمپنیوں اور فیکٹریوں میں مال فروخت کرتے ہیں، کچھ فیکٹری  مالکان بذات خود وہ مال نہیں خریدتے ہیں بلکہ ان کی کمپنی کے مینیجر وغیرہ مال کی خریداری کرتے ہیں، جب یہ مینیجر وغیر ہ مال کی خریداری کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی کمیشن دو ( مثال کے طور پر کہ چیز کی قیمت 20 روپے ہے،لیکن وہ کہتے ہیں کہ آپ23 روپے سے ہماری کمپنی کو بل بنا کر دو اور اس میں سے 3 روپے ہمیں بطورِ  کمیشن  دےدینا، کیوں کہ ہم آپ سے مال خرید کر اپنی کمپنی میں آپ کا مال استعمال کر وارہے ہیں، کہیں اور سے نہیں خرید رہے ہیں، اگر آپ ہمیں اپنے پاس سے کمیشن نہیں دو گے تو ہم کہیں اور سے مال  لیں گے ،اب صرف مال بیچنے کے لئے  اصل قیمت سے زیادہ کا بل بنا کرزائد پیسےاس مینیجر کو بطورِ کمیشن دینا کیا یہ ہمارے لئے جائز ہے؟ اور کیا اس مینیجر کو کمیشن دینے کی وجہ سے ہم لوگ بھی گناہ گار  ہوں گے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کمپنی کا مینیجر  کمپنی کی جانب سے سامان کی خریداری کا وکیل ہے، جسے  اپنے کام کی مقررہ تنخواہ اور اجرت ملتی ہے، ایسے شخص پر مالک اور کمپنی کے ساتھ امانت داری کا معاملہ کرنا اور صرف اصل رقم کمپنی سے وصول کرنا لازم ہے،اور کمیشن لینارشوت ہونے کی وجہ سے ناجائزہے،اور کمپنی کے ساتھ دھوکہ دہی،خیانت اور جھوٹ کی وجہ سے سخت گناہ بھی ہے،اسی طرح  فروخت کنندہ کے لیے بھی ایسے شخص کو کمیشن دینا  جائز نہیں،ورنہ دونوں گناہ گار ہوں گے،ایسی صورتِ حال میں فروخت کنندہ کو  چاہیے کہ کمپنی کے مالکان سے رابطہ کرکے حقیقتِ حال سے آگاہ کرے۔

قرآن مجید میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى ‌وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقابِ(المائدة:2)"

ترجمہ:"اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو ،بلاشبہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے."(بیان القرآن )

تفسیرِ مظہری میں ہے:

‌"وَلا ‌تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ يعنى لا تعاونوا على ارتكاب المنهيات ولا على الظلم."

(سورة المائدة،19/3،ط:رشیدیة)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ص: 255، ط: قديمي)

ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار کسی پر بھی ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو!کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی  کے بغیر  حلال نہیں ہے۔‘‘

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن سمرة(عن النبي صلي الله عليه وسلم قاك علي اليد ما أخذت) أي يجب علي اليد رد ما أخذته... قال الطيبي...ما أخذته اليد ضمان علي صاحبها والإسناد إلي اليد علي المبالغة لأنها هي المتصرفه(حتي تؤدي)... أي حتي تؤدِيه إلي مالكه فيجب رده في الغصب وإن لم يطلبه."

(باب الغصب والعارية،الفصل الثاني،119,120/6،ط:مكتبه إمداديه،ملتان)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وما ‌كان ‌سببا لمحظور فهو محظور."

(كتاب الحظر والإباحة،350/6،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد ‌بغير ‌سبب شرعي."

(كتاب الحدود،‌الباب السابع في حد القذف والتعزير،فصل في التعزير،167/2،ط:رشیدية)

شرح المجلۃ میں ہے:

"‌ليس ‌لمن ‌وكل باشتراء شيء معين أن يشتري ذلك الشيء لنفسه حتى لا يكون له وإن قال: عند اشترائه اشتريت هذا لنفسي بل يكون للموكل  لأنه يؤدي إلي تغريرالأمر من حيث انه اعتمد عليه ولأن فيه عزل نفسه ولا يملكه إلا بمحضرمن الوكيل."

(الوكالة،الباب الثالث:في بيان أحكام الوكالة،الفصل الثاني:في بيان الوكالة بالشراء،المادة:624/2،1485،ط:رشيدية)

درر الحکام میں ہے:

"‌إذا ‌قيدت ‌الوكالة بقيد فليس للوكيل مخالفته، فإن خالف لا يكون شراؤه نافذا في حق الموكل ويبقى المال الذي اشتراه له... مثلا لو قال: أحد: اشتر لي الدار الفلانية بعشرة آلاف واشتراها الوكيل بأزيد فلا يكون شراؤه نافذا في حق الموكل وتبقى الدار له. وأما إذا اشتراها بأنقص يكون قد اشتراها للموكل."

(الكتاب الحادي عشر الوكالة،الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة،الفصل الثاني في بيان الوكالة بالشرا،المادة:585/3،1479،ط:دار الجيل)

وفیہ ایضاً:

"‌الأجير ‌يستحق ‌الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل... ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة."

(الكتاب الثاني الإجارة،الباب الأول في بيان الضوابط العمومية للإجارة،المادة :458/1،425،ط:دار الجیل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100462

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں