بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالشراء کا منافع لینے کا حکم


سوال

زید نے بکر کو کہا کہ میرے پاس پیسہ نہیں ہے، لہذا  آپ میرے لیے عمر سے کپڑا خرید لو، اور وہ جتنے قیمت پر دے دے ،  اس پر تھوڑا منافع مجھ سے  لے لو، اور کپڑا مجھے دے دو، تو  کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو یہ کہتا ہے کہ آپ میرے لیے بازار سے فلاں چیز لے آؤ تو یہ توکیل (وکیل بنانے) کا معاملہ ہے، یعنی پہلے شخص نے دوسرے کو اپنا وکیل بالشراء بنایا ہے، اور وکالت جس طرح اجرت کے بدلے ہوتی ہے، اسی طرح بطورِ تبرع بھی ہوتی ہے، اور بطورِ وکیل کوئی کام کرنے پر وکیل کو اجرت لینے کا حق اس وقت ہوتا ہے جب وکالت کے وقت صراحۃً اجرت کی شرط لگالی گئی ہو یا پھر یہ دوسرا آدمی (وکیل) معروف اجرت کے بدلے ہی کام کرنے میں مشہور ہو، یعنی اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ وہ معروف اجرت کے بدلہ کام کر کے دیتا ہو، لیکن اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی جائے تو پھر وکیل کو مؤکل سے اجرت لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں عمر چوں کہ زید کا وکیل بالشراء ہے، اس لیے اس کا زید کے لیے کپڑا خریدنے پر منافع لینا درست نہیں ہے، البتہ اگر زید پہلے سے عمر کے لیے الگ سے اجرت مقرر کردے  تو جائز ہے۔

شرح المجلۃ میں ہے: 

"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان احكام الوكالة ، المادة 1463، ج:3، ص:561، ط: دارالجيل)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة."

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، ج3، ص:573، ط:دارالجیل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101519

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں