بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وکیل بالشراء اپنے موکل سے وہی چیز نہیں خرید سکتا جب تک کہ موکل اس پر قبضہ نہ کرلے


سوال

وکیل بالشراء خرید کردہ چیز کو ( جس کو اس نے بطورِ وکالت خرید کر اس پر قبضہ بھی کرلیا ہو ) اپنے مؤکل سے خرید سکتا ہے یا نہیں؟  جب کہ مؤکل نے اس پر قبضہ نہ کیا ہو اور مؤکل کسی اور شہر میں چلا گیا۔

میں نے اپنے ایک دوست کے لیے موبائل بطورِ وکالت کے خرید کر اس پر قبضہ بھی کرلیا پھر اس کو اپنے مؤکل سے اپنے لیے کچھ زیادہ قیمت کے ساتھ خرید لیا جب کہ وہ دوسرے شہر میں تھا تو کیا میرا اس طرح خریدنا درست ہے؟  جب کہ ایک مولوی صاحب فرما رہے تھے کہ بیع ثانی ( وکیل کا مؤکل سے خریدنا ) قبل القبض ہے اور درست نہیں ہے حالاں کہ وکیل کا قبضہ تو مؤکل کا قبضہ ہوتا ہے تو پھر یہ بیع قبل القبض کیسے ہوئی ؟

برائے کرم میں اس مسئلے میں دلیل کے ساتھ شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ وکیل بالشراء جب اپنے مؤکل کے لیے مطلوبہ چیز خرید لے تو وہ چیز مؤکل کو حوالے کردینے تک اس کے پاس امانت ہوتی ہے، اس کے بعد اگر مؤکل خود اس چیز پر قبضہ کرے تو پھر وہی چیز وکیل بالشرء کو فروخت کرسکتا ہے، مؤکل کے قبضہ کرنے سے پہلے وکیل بالشراء وہی چیز مؤکل سے اپنے لیے نہیں خرید سکتا، اس لیے کہ وکیل کا قبضہ قبضہ امانت ہوتا ہے اور خریداری کی صورت میں ملنے والا قبضہ، قبضہ ضمان ہوتا ہے اور قبضہ ضمان اقوی ہوتا ہے قبضہ امانت سے اور قاعدہ و ضابطہ یہ ہے کہ قوی قبضہ ضعیف کے قائم مقام تو ہوسکتا ہے لیکن ضعیف قبضہ قوی کے قائم مقام نہیں ہوسکتا۔

فتاوی شامی ہے:

"(وملك) بالقبول (بلا قبض جديد لو الموهوب في يد الموهوب له) ولو بغصب أو أمانة؛ لأنه حينئذ عامل لنفسه، والأصل أن القبضين إذا تجانسا ناب أحدهما عن الآخر، وإذا تغايرا ناب الأعلى عن الأدنى لا عكسه"

(قوله ولو بغصب) انظر الزيلعي (قوله عن الآخر) كما إذا كان عنده وديعة فأعارها صاحبها له فإن كلا منهما قبض أمانة فناب أحدهما عن الآخر (قوله عن الأدنى) فناب قبض المغصوب والمبيع فاسدا عن قبض المبيع الصحيح۔۔۔الي آخره"

(فتاوی شامی، ج: 5، ص: 694)

لہذا صورت مسئولہ میں وکیل بالشراء اسی چیز کو مؤکل کے قبضہ سے قبل نہیں خرید سکتا ہے، لہذا سائل کے لیے ضروری ہےکہ  پہلے اپنے مؤکل کو مبیع کا قبضہ حقیقی دے پھر اس سے خریدے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں