بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا وکیل بالقبض مشتری بن سکتاہے؟


سوال

وکیل بالقبض مشتری بن سکتا ہے ؟

جواب

وکیل بالقبض جب مؤکل کی طرف سے قبضہ کرلے تو اس کے بعد اس کا مؤکل سے وہ چیز خریدنا درست ہے، لیکن خریدنے کے بعد تجدیدِ قبضہ ضروری ہے؛ کیوں کہ قبضۂ امان، قبضۂ ضمان کے قائم مقام نہیں ہوسکتا؛ لہٰذا ایک ہی عقد میں یہ طے کردینا کہ آپ میری طرف سے قبضہ کرکے اپنے لیے خرید لیں، درست نہیں ہے۔

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ میں ہے:

"أما إذا اختلف القبضان، بأن كان أحدهما قبض أمانة، والآخر قبض ضمان، فينظر: إن القبض السابق أقوى من المستحق، بأن كان السابق قبض ضمان والمستحق قبض أمانة، فينوب عنه؛ لأن به يوجد القبض المستحق وزيادة، وإن كان دونه، فلا ينوب عنه وذلك لانعدام القبض المحتاج إليه، إذا لم يوجد فيه إلا بعض المستحق، فلاينوب عن كله.

أما إذا كان المبيع في يد المشتري بعارية أو وديعة أو رهن، فلا ينوب القبض الأول عن الثاني، ولا يصير المشتري قابضا بمجرد العقد، لأن القبض السابق قبض أمانة، فلا يقوم مقام قبض الضمان في البيع، لعدم وجود القبض المحتاج إليه". (ج: 32، ص: 276، 277، دار المطابع مصر) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144105200670

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں